کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 25
مجرم کوحتیٰ الامکان معاف کرنے کے رجحان پر گامزن ہیں، اور توہین رسالت کے مرتکب کے لئے سزائے موت کو صرف ایسی انتہائی سزا کے طورپر اجازت دینے کے روا دار ہیں جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ موقف فقہاے احناف کا نہیں جواہانت ِرسول کو ایسا جرم سمجھتے ہیں جس کی سزا شریعت ِاسلامیہ میں مقرر شدہ ہے۔ موصوف کا اس جرم کو سرکشی اور عناد کی انتہائی حد کے ساتھ نتھی کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اکیلی توہین رسالت کو مستقل بالذات جرم نہیں سمجھتے۔ یہ ویسا ہی موقف ہے جیسے متجددین کا یہ موقف ہے کہ رجم شادی شدہ زانی کی مستقل بالذات سزا نہیں ہے ،تاہم وہ رجم کو زنا کے بدترین اور عادی مجرم کی انتہائی سزا کے طورپر گوارا [1] کرتے ہیں۔ ان کے موقف کی مزید وضاحت رسالہ کے صفحہ نمبر 36 پر ملاحظہ ہو جسے اُنہوں نے فقہ حنفی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’جہاں تک توہین رسالت کے جرم پر سزاے موت کے حد یا تعزیر ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے فقہاے احناف کے موقف اور صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے مابین کوئی اختلاف نہیں [کہ یہ حد نہیں ہے] ۔[2] یہ تما م اہل علم اسے ایک تعزیری سزا ہی سمجھتے ہیں، البتہ جمہور کے نزدیک اس جرم پر ترجیحاً یہی [موت کی] سزا دی جانی چاہئے جبکہ احناف کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ عمومی قانون کے طورپر سزاے موت کے بجائے کم ترسزاؤں کا نفاذ زیادہ قرین قیاس ومصلحت ہے۔‘‘ ایک او رمقام پر لکھتے ہیں کہ ’’فقہاے احناف اور جمہور فقہا کے مذکورہ اختلاف کی تعبیر عام طورپر یوں کردی جاتی ہے کہ جمہور اہل علم توہین رسالت پر سزا کو ’حد‘ یعنی شریعت کی مقرر کردہ لازمی سزا سمجھتے ہیں جبکہ احناف کے نزدیک یہ سزا ایک تعزیری اور صوابدیدی سزا
[1] مولانا امین احسن اصلاحی کا رجم کے بارے موقف ملاحظہ ہو:’’ رجم یعنی سنگسار کرنا ہمارے نزدیک [سزاے محاربہ:] تقتیلکے تحت داخل ہے۔ اس وجہ سے وہ گنڈے اوربدمعاش جو شریفوں کی عزت او رناموس کے لئے خطرہ بن جائیں، جو اغوا اور زنا کو پیشہ بنا لیں، جو دن دیہاڑے لوگوں کی عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالیں، کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں، ان کیلئے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے۔‘‘ (تدبرقرآن2/277) ’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں رجم کی سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے، ان کا خیال بالکل غلط ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ سزا ہر قسم کے زانیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف ان زانیوں کے لئے ہے جو معاشرے کے عزت وناموس کے لئے خطرہ بن جائیں۔‘‘ (تدبرقرآن:2/505) [2] بریکٹوں میں کی جانے والی صراحت راقم کی طرف سے ہے، کیونکہ پوری عبارت اور اگلے اقتباسات سے یہی متبادر ہوتا ہے۔اس صراحت سے قاری کو مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔