کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 24
مضمون نگار کا موقف، اُن کے الفاظ میں مضمون نگار کا موقف یہ ہے کہ توہین رسالت کی شریعت ِاسلامیہ میں کوئی مقررہ سزا نہیں بلکہ اسے بھی حد حرابہ کے ضمن میں لایا جائے ۔ اپنے رسالہ میں وہ لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اپنے قول وفعل سے آپ کی حیثیت ِرسالت کو چیلنج کریں اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں ، سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 33 میں سخت اور سنگین سزاؤں کا مستحق قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف اقدام کا حق حاصل تھا، جو اسلام کے بارے میں محاربہ اور معاندت کا رویہ اختیار کرے اور جسے سزا دینا آپ موقع ومحل کی رو سے مناسب سمجھیں ۔ ظاہر ہے کہ جن افراد نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرنے کے لئے آپ کی توہین وتنقیص، ہجوگوئی اور سبّ وشتم کا رویہ اختیار کیا اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی معاندانہ مہم میں ایک ذریعے کے طورپر استعمال کیا، وہ بدیہی طورپر محاربہ کے مرتکب تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اختیار کے تحت ایسے بہت سے افراد پر موت کی سزا نافذ فرما دی۔‘‘[1] ایک اور مقام پر احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ میں سے توہین رسالت کے بہت سے واقعات ذکر کرنے کے بعد نتیجہ کے طورپر لکھتے ہیں: ’’مذکورہ تمام مجرموں کو دی جانے والی سزا دراصل اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاربہ کی سزا تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے بدیہی طور پر اس سزا کے زیادہ مستحق تھے، اس لئے ان واقعات میں عقل ومنطق کے سادہ اُصول کے مطابق یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ محض سبّ وشتم کے مجرم کو ہرحال میں قتل کرنا لازمی ہے۔ ‘‘[2] یہ ہے مقالہ نگار موصوف کا وہ موقف جو اُنہوں نے ’توہین رسالت کا مسئلہ‘ نامی اپنے کتابچہ میں تفصیل سے لکھا ہے، جسے مکتبہ امام اہل سنت، گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے۔اُن کی اس موقف کی جھلک ان کے ترمیمی مطالبوں[3] میں بھی دیکھی جاسکتی ہے، جس میں وہ ایسے
[1] کتابچہ ’توہین رسالت کا مسئلہ ‘ : ص10 [2] ایضًا: ص 48 [3] ترمیمی تجاویز کے لئے دیکھئے ادارتی صفحات میں شائع ہونے والا مضمون ، ص6