کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 22
جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ مجلّہ مذکور میں شائع ہونے والے موقف سے متفق نہیں : ’’آپ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ آئندہ شمارے میں اس بات کی واضح تردید کردی جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ یہ مضمون غلطی سے حضرت کے نام سے شائع کیا گیا ہے اور حضرت کو اس مضمون سے مکمل اتفاق بھی نہیں ہے۔‘‘ [1] راقم نے علماے احناف کے حقیقی اور کامل موقف کی وضاحت کے لئے ایک مستقل مضمون ترتیب دیا ہے جسے مستقل طورپر عنقریب شائع کیا جائے گا۔جہاں تک مضمون نگار کے توہین رسالت پر بیان کردہ موقف کا تعلق ہے تو وہ کسی طرح حنفیت کی ترجمانی نہیں کرتا، بلکہ وہ سراسر جاوید احمد غامدی کے موقف کی نمائندگی پر مبنی ہےجس کی تفصیلات اسی شمارے میں مستقل طور پر شائع کردی گئی ہیں۔ غامدی فرقے نے آسیہ مسیح کیس کے موقع پر سات ماہ قبل حنفی موقف میں اضطراب کا شوشہ چھوڑا تھا، اور ا س کے بعد جاوید غامدی کے اپنے قلم سے اس موضوع پر تین مضامین کے علاوہ مجلّہ اشراق میں متعدد ایسے مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں حنفی موقف کی من مانی تحقیق کو اُچھالا جارہا ہے۔ عین انہی دنوں مجلّہ الشریعہ میں بھی نہ صرف نصف درجن کے قریب اسی موضوع پر مضامین شائع ہوئے ، بلکہ مدیر مجلہ نے ایک تفصیلی تحقیق مستقل کتابچہ کی صورت میں بھی شائع کردی ہے جس کو بعد ازاں روزنامہ پاکستان نے بڑے پیمانے پر شائع بھی کیا ہے۔ اس موقع پر اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے بعض پروفیسر صاحب حنفیت کی اسی تحقیق کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی ’دینی خدمت‘ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ جاوید غامدی کے توجہ دلانے سے قبل ماضی میں حنفیت کے نام پر یہ تحقیق کہیں نظر نہیں آتی، اس سے بھی اس سارے منظر نامے کے مقاصد ورجحانات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ان تمام کاوشوں کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ جاوید غامدی کے الحادی موقف کو مسلمانانِ پاکستان کے اتفاقی موقف کے بعد، نام نہاد تحقیق کے ذریعے مسلط کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو اس سازش کو سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!
[1] مراسلہ از مولانا عبد الرؤف سکھروی، مؤرخہ 23 جون 2011ء، مطبوعہ زیر عنوان ’مکاتیب‘