کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 21
صفدر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حنفیت کی اس نادر تحقیق کی بھرپور دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’احناف کے نزدیک اس کی حد قتل نہیں ہے، پاکستان میں اکثریت احناف کی ہے ، اس لئے ان کے نظریہ کے مطابق اس کی حد قتل نہیں ہونی چاہئے۔‘‘ مولانا قارن رقم طراز ہیں: ’’یہ اعتراض مکرو فریب کا جال اور احناف کے مسلک سے بےخبری کا نتیجہ ہے۔ اس مسئلہ میں احناف کی بعض عبارات کو لے کرتحفظ ِناموس رسالت قانون میں تبدیلی کرنے والے مفاد پرستوں کو کبھی خیال نہیں آیا کہ 1956ء سے نافذ ’عائلی قوانین ‘ بھی تو احناف کے نظریے کے خلاف ہیں، ان کو تبدیل کروانے کے لئے کیوں آواز نہیں اُٹھائی جاتی حالانکہ ان میں سے بعض مسائل میں نوبت واضح حرام کے ارتکاب تک جا پہنچتی ہے۔ پھر یہ بھی غلط بیانی ہے کہ گستاخ رسول کی حد قتل کی صورت میں احناف کے نظریہ کے خلاف ہے۔ اس پر یہی دلیل کافی ہے کہ اس قانون کو منظور کروانے والوں میں حنفی دیوبندی مکتب فکر کے جید عالم دین استاذ المحدثین حضرت مولانا عبد الحق صاحب، اکوڑہ خٹک والے بھی تھے جن کی تدریسی خدمات نصف صدی سے زائد ہیں اور ان کے سینکڑوں شاگرد شیخ الحدیث اور استاذ الحدیث کے مناصب پر فائز ہیں۔ اور حنفی بریلوی مکتب فکر کے نامور عالم دین علامہ عبد المصطفیٰ ازہری تھے جو اپنے طبقہ میں مایہ ناز مدرس اور مفتی تھے۔ پھر ان کو اپنے اپنے طبقہ کے تمام علماے کرام کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اگر یہ قانون حنفی نظریہ کے مخالف ہوتا تو اس کو حنفی علما کی حمایت حاصل نہ ہوتی جبکہ کسی ایک قابل شمار عالم کی مخالفت میری نظر سے نہیں گزری۔ موجودہ دور کے احناف سے پہلے بھی فقہاے احناف گستاخ رسول کے قتل کا ہی نظریہ رکھتے تھے۔‘‘ [1] یاد رہے کہ مجلّہ ’الشریعہ‘ کے شمارہ جون میں پاکستانی احناف کے انتہائی معتمد عالم مولانا مفتی رفیع عثمانی کا ایک مضمون بھی شائع کیا گیا تھا جس میں مولانا نے ذمّی کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کے مجرم کےلئے توبہ کی گنجائش کا امکان پیش کیا تھا۔لیکن مجلہ مذکور کے شمارۂ اگست میں مولانا عثمانی نے اس موقف کی اپنی طرف نسبت پر تردّد کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے،
[1] ماہنامہ نصرۃ العلوم ، گوجرانوالہ شمارہ اپریل 2011ء اور مجلّہ صفدر گجرات ، شمارہ نمبر5، ص 21