کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 20
بھرپور عددی اکثریت کے ساتھ موقف آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا، اس میں کوئی تبدیلی واقع [1]نہیں ہوئی۔حتیٰ کہ دیوبندی مکتب ِفکر جو حنفی فقہ کا ہی پیروکار ہے، کی اکثریت کا موقف بھی آج تک یہی ہے جسے اب تحقیق کے نام پر متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نامور بریلوی عالم مولانا احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:
’’کتاب وسنت ، اجماعِ اُمت اور تصریحاتِ ائمہ دین کے مطابق توہین رسول کی سزا صرف قتل ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت،توہین رسول ہے۔ قرآن مجید نے اس جرم کی سزا قتل بیان کی ہے، اسی بنا پر کافروں کے قتل کا حکم دیا گیا ہے...
فتاویٰ قاضی خاں کے مطابق کسی شے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگانے والا کافر ہے اور اسی طرح بعض علما نے فرمایا کہ اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بالِ مبارک کو شعر کی بجائے ’شعیر‘(بصیغہ تصغیر) کہہ دے تو وہ کافرہوجائے گا اور امام ابو حفص الکبیر حنفی سے منقول ہے کہ اگر کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ایک بال مبارک کی طرف بھی عیب منسوب کیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔‘‘ [2]
فاضل مضمون نگار نے ماضی میں جس طرح حدود قوانین کی نئی تعبیر پر ایک مستقل کتاب لکھ دی تھی، جسے بعد میں ’متجدد‘اسلامی نظریہ کونسل نے شائع بھی کردیا تھا، ان کی اس تحقیق سے سیکولر طبقات یا منکرین حدیث کے سوا معروف ونمائندہ اہل علم کو کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا، جیسا کہ اس کے بعد جامعہ مدنیہ لاہور کے مفتی ڈاکٹر عبدالواحد حفظہ اللہ اور مولانا عبد القیوم حقانی سمیت وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان ماہ نامہ ’وفاق المدارس‘ ملتان میں اس کے خلاف تردیدی مضامین شائع کئے گئے۔ان حضرات نے حدود قوانین پر اس متجددانہ موقف کی پرزور تردید کی تھی، پتہ چلا ہے کہ اب بھی مفتی صاحب موصوف اس مسئلہ پر مفصل تردید لکھ رہے ہیں۔ بہرطور حنفیت کی یہ تازہ تحقیق بھی وقت گزرنے کے ساتھ اپنی حیثیت واضح کرے گی کہ کیا یہی پاکستان کے احناف کا مفتیٰ بہٖ قول ہے یا نہیں؟ سردست اسے حنفیت کے نام پر ایک ’محققانہ ندرت‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
انہی دنوں جناب مضمون نگار کے سگے چچا مولانا عبد القدوس قارن بن مولانا سرفراز خاں
[1] دیکھئے محدث شمارہ فروری 2011ء میں شائع شدہ مضمون: ’مسئلہ توہین رسالت پر علماے احناف کا موقف‘ از علامہ محمد تصدق حسین اور کتابچہ ’گستاخِ رسول کی سزا اور فقہاے احناف‘ از مؤلّف مذکور
[2] ’ناموس رسول اور قانون توہین رسالت‘ از محمد اسمٰعیل قریشی: ص156، 158