کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 350 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر قانونِ امتناعِ توہین رسالت میں ترمیم کا مطالبہ؟ کسی ریاست کے یوں تو اسلامی ہونے کے متعدد معیارات اور پیمانے ہیں، تاہم ان میں سب سے نمایاں داخلی پیمانہ یہ ہے کہ وہاں اللہ کی شریعت نافذ ہو اور اس کی بنا پر لوگوں کے فیصلے کئے جاتے ہوں۔ اسی مقصد کے لئے پاکستان کو حاصل کیا گیا اور اسلامی احکامات کے فروغ کے ساتھ ساتھ شرعی قوانین کے نفاذ کے لئے یہاں بہت سے پر مشقت اورصبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ قیام پاکستان سے قبل ہی متحدہ ہندوستان میں دین اسلام سے نکاح وطلاق کے بعض قوانین رائج تھے، 1961ء میں اُن میں ’عائلی قوانین‘ کے نام سے متعارف کردہ اصلاحات کے ذریعے بہت سی خلافِ اسلام چیزیں شامل کردی گئیں۔ 1973ء کے آئین میں بطورِ خاص قانون کو اسلامی بنانے کے لئے ’اسلامی نظریہ کونسل‘ کا وجود عمل میں لایا گیا۔ بعد ازاں صدر ضیاء الحق مرحوم کا دور اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس میں وفاقی شرعی عدالت، حدود قوانین اور آخری سالوں میں قانونِ توہین رسالت بھی متعارف کرایا گیا۔ اِسی دور میں جاری شدہ عدالتی عمل کے نتیجے میں قصاص ودیت اور شفعہ کے شرعی قوانین کتابِِ قانون کا حصہ بنتے رہے۔ ضیاء الحق کا دور اس لحاظ سے دیگر تمام ادوار پر فائق ہے کہ انہی سالوں میں دیگر حکومتوں کے برعکس اسلام کے لئے بہت سے عملی اقدامات کئے گئے جبکہ بعد کے سالوں میں ان قوانین کو دوبارہ واپس کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ حتیٰ کہ ضیا دور کا شریعت بل کا نعرہ ، آخر کار جب 1991ء میں نواز حکومت نے عملاً منظور کیا تو اس میں اسلام کے بارے خوبصورت جذبات اور نیک خواہشات کے علاوہ عملی طورپر کوئی قدم شامل نہ تھا۔ گزشتہ برسوں میں وطن عزیز میں حدود قوانین کو غیرمؤثر کرنے کی بھرپور مہم چلائی گئی جس کی شدت اور نوعیت سے باخبر لوگ بخوبی آگاہ ہیں، اس کے نتیجے میں حقوقِ نسواں بل متعارف ہوا جس کی بعض دفعات کے غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ بھی انہی دنوں سامنے آچکا