کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 19
اور سب سے بڑھ کر بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ فیصلہ ہماری عدالت نہ مانے اور اس کے مطابق اس جرم کی سزا ، سزائے موت تسلیم نہ کرے۔.... قرآنِ کریم کی سورۃ المنافقون کی آیت نمبر8 سے معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی منافق تنہائی میں بھی آں حضرت کے متعلق صرف اتنی سی بات کرےکہ پیغمبر اور اس کے ساتھی ذلیل ہیں ، عزت والے نہیں تو اُس کو مستحق قتل شمار کیا گیا۔‘‘[1] کراچی کے معروف جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاؤن کے ترجمان ماہنامہ ’بینات ‘کے مدیر مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اسی موقف پر ان الفاظ میں اپنا موقف پیش کیا: ’’اسلامی قانون کی رو سے توہین رسالت کا مرتکب سزاے موت کا مستحق ہےاور اس مسئلہ پر تمام صحابہ وتابعین متفق ہیں۔ انگریز کے دورِ اقتدار میں ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے کوئی قانون نہ تھا لیکن راجپال جیسے ازلی بدبختوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر ناپاک حملے کئے اور وہ غازی علم الدین شہید جیسے فدائیانِ رسالت کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچے...‘‘ [2] مجاہد ِناموس رسالت جناب محمداسمٰعیل قریشی کی کتاب ’ناموسِ رسول اور قانون توہین رسالت‘ جو اس قانون کی تشکیل [1982 تا 1992ء] کی مستند تاریخی دستاویز ہے، میں درجنوں علماے کرام کے فرامین اور اقوال کو درج کیا گیاہے اور اس موقع پر کسی مکتب ِفکر نے اُمت ِاسلامیہ کے اس مرکزی موقف سے سرمو انحراف نہیں کیا۔جس کا اس کے سوا کیا مفہوم ہے کہ وہ سب اہل علم اس قانون کے اطلاق کو وسیع مانتے تھے اور موجودہ زمانے کے غیرمسلموں کو فقہی موشگافیوں کی بنا پر اس میں کوئی رعایت دینا اُنہیں گوارا نہیں تھا۔ ثانیاً، احناف کے اختلافی ، کلاسیکی یا تاریخی موقف سے قطع نظر، جن کی روایات میں بھی اختلاف موجود ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ احناف کے پاکستان میں مفتیٰ بہ قول کو پیش نظر رکھا جائے۔ احناف کے مفتیٰ بہ قول کی روشنی میں ماضی میں پاکستان میں فیصلہ دیا جاچکا اور حال میں بھی پاکستان کے احناف کی اکثریت اسی کی قائل ہے، جیساکہ نامور حنفی علما کا موقف اوپر بیان ہوچکا ۔ علاوہ ازیں بریلوی مکتبِ فکر ، جو حنفی فقہ پر ہی عمل پیرا ہے، کا اپنی
[1] ’ناموس رسول اور قانون توہین رسالت‘ از محمد اسمٰعیل قریشی: ص163، 164 [2] ایضاً: ص153