کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 18
اوّلاً، تو آج سے بیس برس قبل اس قانون کی تشکیل کے موقع پر وفاقی شرعی عدالت اور جمہوری رہنماؤں کے سامنے پاکستان کے تمام مکاتب ِفکر کا جو نمائندہ موقف پیش کیا گیا تھا، اس میں کسی اختلاف کا کوئی شائبہ نہ تھا، وگرنہ حکومت اس قدر واضح قانون سازی کرنے پر کبھی مجبور نہ ہوتی۔ ٭ اس وقت حنفی علما کی اس قانون سے اختلاف نہ کرنے کی وجہ اس کے سوا کوئی نظر نہیں آتی کہ بعض علماے احناف کے ہاں دیگر اہل علم سے اگر کوئی اختلاف پایا جاتا ہے تو وہ فقط ذمّی کے مسئلے میں ہے اور چونکہ ذمّی کا ہونا اس دور میں متحقق نہیں اور نہ ہی پاکستان کے غیرمسلموں پر ذمی کا حکم لگایا جاسکتا ہے، اس بنا پر علمائے احناف نے بھی اُس سے کوئی اختلاف نہیں کیا تھا۔ اور یہ کہنا کہ حنفی اکابر فقہ حنفی کے اس اختلافی جزئیہ سے بے خبریا غافل تھے، ایک طرف ان کے علمی مقام پر تہمت ہے تو دوسری طرف تاریخی حقائق سے بھی اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس سے قبل 1930ء میں توہین رسالت کے مشہور غازی علم دین کیس کے موقع پر یہ بحثیں متحدہ ہندوستان میں اُٹھ چکی ہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل مولانا عبد الماجد دریابادی کے مضمون مطبوعہ 1932ء میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ 25 برس قبل موقر حنفی مدرسہ جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کاندھلوی نے اپنا موقف ان الفاظ میں شرعی عدالت کے سامنے پیش کیا تھا : ’’اُمت کے تمام فقہا اور ائمہ مفسرین ومحدثین کا فیصلہ ہے کہ توہین رسول اللہ کی سزا موت ہے۔....علامہ شامی نے اس پر اُمت ِمسلمہ کا اجماع ذکر کیا ہے کہ جو بھی شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین کرے، اس کی سزا قتل ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور سفیان ثوری، شام وعراق اور مصر کے تمام قاضیوں اور مفتیوں کا یہی فتویٰ عدالتوں میں نافذ وجاری رہا۔ توہین رسالت کے مرتکب شخص کے بارے میں تاریخ اسلام میں کبھی کوئی اختلاف نہیں پایا گیا اور صحابہ کے عمل سے بھی اس بات کا ثبوت ملا کہ اُنہوں نے ایسے مجرم کو سزائے موت دی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توثیق فرمائی۔اس موقع پر ہم یہ بات واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ اگر عدالتی سطح پر کسی ایک عدالت کا کسی مقدمہ میں فیصلہ نظیر قرار دیا جاتا ہے اور اسے عدالتیں نظیر قرار دے کر فیصلے کرتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا اجماع ، تمام ائمہ کا اجماع،