کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 16
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس ہی اتنی ارزاں کیوں ہے؟ قانونِ توہین رسالت کو یہاں مروجہ دستوری تقاضوں کے عین مطابق نافذ کیا گیا ہے، اور یہ اس وقت پاکستان کا منظور شدہ مروجہ قانون ہےجس کی پابندی ہر شہری کو کرنا ضروری ہے۔ ٭ جہاں تک اسلام کے قانونی تصور کا تعلق ہے تو اسلام میں بھی مجرم کے قاضی کے پاس آجانے کے بعد، توبہ کی بنا پر اُس کی دنیوی سزا سے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے، جیساکہ یہ بات صریح احادیث سے ثابت ہے، حتیٰ کہ مضمون نگار جو اس جرم کی اساس اہانت کی بجائے محاربہ کو قرار دیتے ہیں __جیسا کہ آگے آرہا ہے__ کے سلسلے میں قرآنِ کریم کا حکم تو بالکل واضح الفاظ میں موجود ہے، کہ محاربہ میں توبہ کی بنا پر معافی کی گنجائش مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ سے مشروط ہے۔ اسلام میں عدالت کےعلم میں آجانے کے باوجود توبہ کی گنجائش تو صرف ارتداد کے جرم میں ہے اور ارتداد ایک حد ہے جس کو توہین رسالت کی سزا کی اساس کے طورپر بھی مضمون نگار تسلیم نہیں کرتے بلکہ توہین رسالت کی سزا کی علت جرمِ محاربہ کو قرار دیتے ہیں، پھر نامعلوم کس بنا پر ایسے مجرم کو توبہ کی گنجائش کا موقف اختیار کیا جارہا ہے؟ ٭ اوپر درج شدہ دونوں عنوانات پر اگر غور کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان میں جاری نظامِ جرم وسزا اور مروّجہ قانون کے ہوتے ہوئے تو اہانتِ رسول کے حقیقی مجرم کے لئے کسی گنجائش کا کوئی امکان نہیں ۔ تاہم اگر اس قانون کو فکری انتشار اور علمی بحران کا شکار کرکے نظرثانی کے لئے بھیج دیا جاتاہے تو نئی قانون سازی میں ان سفارشات کو پیش نظرلایا جائے گا اور اس بنا پر نئی قانون سازی کی جائےگی۔ راقم نے یہ ساری بحث اسی بنا پر فقہی تناظر کی بجائے قانونی اور معاشرتی تناظر میں کی ہے کہ اصل قانون تو اس وقت نافذ ہے جو ہر مجرم پر جاری ہے۔ توہین رسالت پر نئی بحثیں شائع کرنے کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں کہ قانون تبدیل کروانے کی فضا سازگار کی جائے، اس کے بعد یہ فقہی بحثیں قانون کی صورت میں مؤثر ہوکرسامنے آئیں گی۔غرض یہ سفارشات اورفقہی مباحث مروّجہ قانون میں تبدیلی کے نقطہ نظر سے پیش کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں حکومتِ وقت اس قانون کی اصلاح کے نام پر حدود قوانین کی طرح اس کو مسخ اور ناقابل سزا بنا کرچھوڑے گی، اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔اس تناظر میں فقہ اسلامی کے نام پر کی جانے والی یہ متجددانہ کاوش