کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 15
’’جہاں تک شاتم نبوت یا کسی اور نبی کے گستاخ کافر کا تعلق ہے تو اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا، اور مطلقاً اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ تاہم اگر وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کی توبہ مقبول ہوسکتی ہے کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ پہلے جرم میں بندے کا حق بھی شامل ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا ۔ جو شخص کافر کی اس سزا اور اسکے کفر میں شک کرے تو وہ بھی کافر ہوجاتا ہے۔‘‘ [1] ٭ جہاں تک پاکستان میں مروّجہ قانون کا تعلق ہے تو اس کی رو سے تو جو شخص جس علاقے میں ہو، اس پر اس وقت وہی قانون نافذ ہوتا ہے۔ گویا قانون کا تعلق نظریہ وعقیدہ کی بجائے علاقہ وزمین سے جوڑ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ فرانس میں بسنے والے مسلمانوں پر، ان کے شرعی اعتقاد کے برعکس فرانس کا امتناعِ حجاب کا جمہوری قانون نافذ ہوتا ہےاور پاکستان آنے والے غیرملکیوں پر پاکستان کا قانون۔ اس بنا پر پاکستان میں جمہوری تقاضوں کے مطابق بننے والا یہ اسلامی قانون ملک کے تمام شہریوں پر بلاامتیاز لاگو ہوتا ہے، جن میں مسلمان اور ذمّیوں کا کوئی فرق موجود نہیں۔ مروّجہ قانونی نظام میں توبہ کا مصرف؟ مذکورہ بالا نکتہ کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ جرم وسزا کے پاکستان میں مروّجہ مغربی تصور کی رو سے،ریاست کو گناہ کی روک تھام سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے؛ یہ فرد اور اللہ کا باہمی معاملہ ہے۔ ریاست کا کام ہے جرائم کی روک تھام... جس پر کنٹرول کے سلسلے میں توبہ کا کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ جرم کی دنیوی سزا ہی اس کو روک سکتی ہے۔ پاکستانی ریاست جرم وسزا کو اللہ اور بندے کے شرعی تعلق کی بجائے جمہوری نمائندوں کے طے کردہ انسانی قانون کے تناظر میں دیکھتی ہےجس میں توبہ کا کوئی مصرف نہیں۔اس بنا پر مضمون نگار کا یہ قرار دینا کہ اہانت کے مجرم کوتوبہ کا موقع فراہم کیا جائے، موجودہ قانونی تصور میں سرے سے ایک بے معنیٰ سفارش ہے۔ ٭ پھر کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان میں چوری کرنے والا توبہ کے بعد مال واپس کرکے اپنی سزا ختم کروالے۔ جب کسی دوسرے جرم کے ضمن میں ایسی کوئی بات موجود نہیں تو پھر اللہ
[1] الدّر المختار از حصکفی :4/232