کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 14
ہے،نامورحنفی فقیہ علامہ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں:
ولا ينتقض عهد بالإباء عن الجزية والزنا بمُسلمة وقتل مسلم وسب النبي صلی اللہ علیہ وسلم لأن الغاية التي ينتهي بها القتال التزام الجزية [1]
’’ذمی اگر جزیہ دینے سے انکار کرے یا کسی مسلمان عورت کے ساتھ بدکاری کرے، یا کسی مسلمان کو قتل کردے، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے، تو اس سے اس کا معاہدہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ وہ غایت جس پر قتال رک جاتاہے وہ یہ ہے کہ ذمی جزیہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کرلے۔‘‘
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے جس ذمّی کویہ ساری گنجائشیں عطا کرنے کا موقف پیش کیا ہے وہ اُس کا جزیہ ادا کرنے کی پابندی کو قبول کرنا ہے۔ اب کیا پاکستان میں موجود غیرمسلم جزیہ ادا کرتے ہیں؟ قرآنِ کریم نے بھی جزیہ کا یہ واضح اُصول بیان کیاہے :
﴿حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۰۰۲۹﴾
’’حتیٰ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کررہیں۔‘‘
فاضل شہیر ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ ماضی کی دار الاسلام اور دارالکفر یعنی نظریاتی ریاستوں کے دور کی بحثوں کو موجودہ وطنی ریاستوں کے دور میں از سرنو دیکھنا ضروری ہے کہ اب ان اصطلاحات کے معانی اور اطلاقات بدل چکے ہیں۔
لہٰذا پاکستان میں بسنے والے غیرمسلموں پر شرعِ اسلامی کے وہ احکام لاگو ہوں گے جو کافر کے بارے میں ہیں ، اور کافر کے بارے میں احادیث ِنبویہ کی دلالت واضح ہے کہ آپ کے دور میں کئی یہودیوں اور مشرکین کے علاوہ یہودی عورت کو بھی شتم رسول کی بنا پر سزاے موت دی گئی۔ اور کافر شاتم کے بارے فقہ حنفی میں بھی کوئی اختلاف نہیں ، بعض احناف کا اختلاف تو ذمیوں کے بارے میں ہے ۔ جیسا کہ صاحب ’درمختار‘ علامہ حصکفی حنفی نے واضح کہا ہے:
و (الكافر بسب نبي) من الأنبياء فإنه يقتل حدًّا ولا تقبل توبته مطلقًا ولو سبّ الله تعالى قبلت لأنه حق الله تعالى والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شك في عذابه وكفره كفر
[1] البحر الرائق: 5/124