کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 13
فيها فقد يكون مجموعها يقتضي الشرع له حكمًا [1]
’’بسا اوقات متعدد اُمور کے مجموعہ پر جو شرعی حکم لگتا ہے، وہ حکم اس کے ہرہر جز پر صادق نہیں آرہا ہوتا اور یہی امام مالک کے اس قول کا مفہوم ہے کہ جوں جوں لوگ فسق وفجور میں مبتلا ہوتے جائیں گے، ان کے لئےاحکام میں تبدیلی ہوتی جائے گی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ شرعی احکام زمانے کی تبدیلی کی بنا پر بدل جاتے ہیں، بلکہ نئی پیدا شدہ صورتحال کی بنا پر احکام کے اطلاق میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔ جب بھی کوئی مخصوص صورت حال پیدا ہو تو ہمیں چاہئے کہ اس میں ازسر نو غور کریں کیونکہ بعض اوقات حالات کا نیا مجموعہ شریعت کے دوسرے حکم کا متقاضی ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کے غیرمسلم، شرعی ذمّی کا مصداق نہیں !
متعلقہ مجلّہ میں شائع کئے جانے والے مضامین سے پتہ چلتا ہے کہ بعض حنفی فقہا کے نزدیک توہین رسالت کی سزا ذمّی کے لئے وہ نہیں جو اس وقت مروّجہ قانون میں متعارف کرائی گئی ہے۔ بالفرض اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ فقہ حنفی کے بعض فقہا کا موقف یہی ہے کہ ذمّی کے سلسلے میں ضروری ہے کہ اس کو موت کی سزا شرعاً نہ دی جائے بلکہ عوام المسلمین اور سیاسی مصالح کے پیش نظر دی جائے تو اس سے ہمارے پیش نظر حالات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ فقہاے کرام نے جس دور میں یہ تقسیم کی تھی، وہ دارالاسلام اور دار الکفر/الحرب/العہد وغیرہ کا دورتھا۔جبکہ پاکستان میں بسنے والے غیرمسلم ،جنہیں ذمی قرار دے کر ان کے بارے میں رعایت کا موقف پیش کیا جارہا ہے، نہ تو شرعی معنوں میں ذمّی ہیں کیونکہ وہ جزیہ ادا نہیں کرتے، اور نہ ہی وہ کمتر حیثیت کے شہری بننے پر قانع ہیں بلکہ وہ تو برابر کے شہری ہونے کے دعویدار ہیں۔ ذمی، معاہد اور مسلم ہونے کی تقسیم تو اُن ریاستوں میں ہوتی ہے جواسلامی ڈھانچے اورنظریاتی اساس پر قائم ہوں، ان میں خلافت وعدالت سمیت تمام اسلامی نظام جاری وساری ہوں، جبکہ موجودہ ریاستیں وطنی اساس پر جدید نیشنل سٹیٹس ہیں جن میں مغرب کا جمہوری نظام کارفرما ہے۔ اس جمہوری نظام کی بنا پر ہی ہمارے ہاں غیرمسلم حضرات ذمّی کا تشخص اپنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ موصوف کے مضمون میں ہی ذمی کے بارے میں یہ فقہی جزئیہ بھی پیش کیا گیا ہے جس سے حنفی فقہا کا منشا بخوبی معلوم ہوتا
[1] فتاوىٰ سبكی:2/572