کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 12
’’معاہدہ اس وقت ٹوٹ جائےگا جب ذمّی دار الحرب میں چلا جائے یا اہل ذمہ کسی علاقے پر قبضہ کرکے ہمارے خلاف برسرپیکار ہوجائیں۔‘‘[1] فی زمانہ توہین رسالت کے مرتکبین کو فوری طورپر مغربی ریاستیں اپنے پاس اس تیزی سے بلالیتی ہیں کہ مسلمانوں کو كانوں کان خبر نہیں ہوتی ، جیسے نواز شریف کے اوّل دور میں جرمنی میں دو شاتمانِ رسول کرامت اور سلامت مسیح کو تحفظ دیا گیا اور سلمان رشدی کو لندن میں تاحال تحفظ ملا ہوا ہے۔ اور پورا مغربی میڈیا اور حکومتیں ، مع عالمی عیسائی چرچ ان کی تائید کے لئے اہل اسلام کے خلاف معنوی جنگ برپا کردیتے ہیں۔ ایسے بدبختوں کی خصوصی مہمان نوازی کی جاتی او ران کے تحفّظ پر لاکھوں ڈالر صرف کئے جاتے ہیں۔ 4. مزید برآں ایسی صورتحال میں شریعت کے ان احکام کو پیش کرنا جو خلافت ِاسلامیہ کی موجودگی میں پیش کئے گئے اور ان کی بنا پر ایسے مجرمین کی رعایت کا موقف اپنانا درست نہیں کیونکہ شرعی احکام کا اطلاق مختلف افراد او رحالات کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صورتِ حال کی رعایت کرتے ہوئے رخص في القبلة للشيخ وهو صائم، ونهٰى عنها الشاب وقال: «الشيخ يملك إربه، والشاب يفسد صومه» [2] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے شخص کو روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے کی اجازت دی اور نوجوان کو اس سے منع کردیا اور فرمایا: کیونکہ بوڑھا شخص اپنی شہوت پر قابو رکھتا ہے اور نوجوان اس بنا پر اپنے روزے کو فاسد کربیٹھے گا۔‘‘ امام سبکی نے امام مالک کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے یہی بات بیان کی ہے: وقد يحصل بمجموع أمور حكم لا يحصل لكل واحد منهما وهذا معنٰى قول مالك: يحدث للناس أحكام بقدر ما يحدث لهم من الفجور فلا نقول إن الأحكام تتغير بتغير الزمان بل باختلاف الصورة الحادثة فإذا حدثت صورة على صفة خاصة علينا أن ننظر
[1] الہدایہ: 2/163 [2] السنن الصغیر للبیہقی:ج 3/ص 266،صحیح بخاری: 291، سنن ابن ماجہ... علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری نے بھی تحفۃ الاحوذی میں زیر حدیث 339 ، اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔