کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 11
بھی ملحوظ رہنا چاہئے۔ غلبہ اسلام یا خلافت ِاسلامیہ کی موجودگی میں کوئی بدبخت اگر اہانتِ رسول کا ارتکاب کرتا تو اہل اسلام اس کا سدباب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، جبکہ آج کھلم کھلا اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو پامال کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے بے غیرت حکمران اس پر اِک حرفِ مذمت بھی ادا نہیں کرتے۔ مسلم ممالک میں غیر مسلم لوگ ، اسلامی شعائر کو پامال کرکے، اسے اپنے مابین عزت وافتخار کا وسیلہ بناتے ہیں اور دنیا بھر کا کفر ان کی پشت پر جمع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس دور میں توبہ کی گنجائش میسر کردینا، تو نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو غیروں کے ہاتھ میں کھلونا بنادینے کے مترادف ہے۔
ہمارے مخاطب چونکہ حنفی علماے کرام ہیں اور ان کے ہاں توہین رسالت کے ایسے مجرم کے لئے جو ذمّی ہو،[1] قانونی رعایت کے موقف کا دعوٰی کیا جاتا ہے۔اس بنا پر مصر کے ایک حنفی محقق زاہد الکوثری کا موقف ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے ایسے حالات میں فقہ حنفی کا منشا یہ قرار دیا ہے کہ جب ذمیوں کی ایسی حالت ہو تو اس وقت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ان کا عہد ِذمہ ٹوٹ جائے گا او روہ واجب القتل ہوں گے، لکھتے ہیں:
إن أبا حنيفة يرٰى أن لا انتقاض لعهد أهل الذمة بشيء من ذلك إلا أن يكون لهم منعة يقدرون معها على المحاربة أو أن يلتحقوا بدار الحرب فمتٰى انتقض عهدهم أبيح قتلهم متى قدر عليهم [2]
’’امام ابو حنیفہ کی رائے میں اس جرم کے ارتکاب سے اہل ذمّہ کا معاہدہ نہیں ٹوٹتا۔ وہ صرف اس وقت ٹوٹتا ہے جب وہ ایسی جتّھہ بندی کرلیں جس کے بل بوتے پر اُنہیں جنگ کی قوت حاصل ہوجائے یا دار الحرب میں چلے جائیں۔ چنانچہ جب ان کا معاہدہ ٹوٹ جائے تو جب بھی ان پر قدرت حاصل ہو، اُنہیں قتل کرنا مباح ہوگا۔ ‘‘
اسی سے ملتی جلتی بات امام مرغینانی کی’الہدایہ‘ میں بھی اِن الفاظ میں موجود ہے :
ولا ينتقض العهد إلا أن يلتحق بدار الحرب أو يغلبوا على موضع فيحاربوننا
[1] دارالاسلام میں ادائیگی جزیہ کی بناپر امان یافتہ غیرمسلم
[2] النكت الطریفہ:ص 133 بحوالہ کتابچہ ’توہین رسالت کا مسئلہ‘: ص 58