کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 10
میں افسوس ناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔مجرم کے شہری حقوق کا خاتمہ کوئی بڑی سزا نہیں، کیا پاکستان کے دیگر شہریوں کے حقوق پوری طرح ادا ہورہے ہیں جو اِسے اب ایک سزا کے طورپر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اور توبہ کے انکار کے باوجود مجرم کو سزا ے موت نہ دینا بھی نرا مذاق ہے۔ موصوف تو سزائے موت کو صرف اُسی حالت میں گوارا کررہے ہیں، جب یہ جرم انتہائی درجے میں وقوع پذیر ہو اور اس جرم کے انسداد کی اس کے سوا کوئی اور صورت نہ ہو۔ توہین رسالت کی یہ مجوزہ سزا شرعِ اسلامی میں کہیں نہیں پائی جاتی...!! 1.اگر کسی ریاست میں اسلامی احکامات کی یہ حالت ہو جیسا کہ پاکستان میں ہے تو اس وقت اہل دین کو چاہئے کہ اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو کچھ موجود ہے، اسی کو غنیمت جانیں۔نہ کہ پہلے سے حاصل کردہ کامیابیوں میں ’مزید اصلاح کے جذبے سے‘ خامیاں نکالنا شروع کردیں جس سےفائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومتِ وقت اُنہیں اس سے بھی محروم کردے۔ 2. کیا اس بات کو موجودہ قانون کی اصلاح قرار دیا جائے یا تخریب؟کہ اہانتِ رسول کے جرم کو قابل توبہ قرار دے کر مجرم کے تکرار اور شدتِ جرم کا انتظار کیا جائے۔ اس دور میں پیغمبر اسلام کی اہانت کو جس بڑے پیمانے پر معمول بنا لیا گیا ہے اور دنیا بھر کا میڈیا اور حکومتیں اسے اظہارِ رائے کا حق جتانے پر تلی ہوئی ہیں، اس تناظر میں اس جرم کی روک تھام پوری شدت سے ہونی چاہئے۔کم ازکم مسلمانوں کے ممالک میں تو حرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسداری اشد ضروری ہے۔ آج مسلم ممالک میں جو بدبخت توہین رسالت کا ارتکاب کرتا ہے، اس کو غیرمعمولی پروٹوکول دیا جاتا اور اس کو این جی اوز سپانسر کرتی ہیں، دنیا بھر سے اس کی حمایت میں بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔آسیہ مسیح یا مختاراں مائی کی اس کے سوا کیا اہمیت ہے کہ ایک نے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے اور دوسری پاکستان کو رسوا کررہی ہے اور اسی جرم کی بدولت عالمی چرچ اور دنیا بھر کے میڈیا کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی ہیں۔ الغرض جب بھی اسلام کے نام پر کسی جرم کا سزا کا مسئلہ درپیش ہو تو دنیا بھر کی دلچسپیاں اس میں دیدنی ہوتی ہیں۔ 3. یہ بھی یاد رہے کہ ائمہ فقہا کے مابین اہانت رسول کے مرتکب کی توبہ کی قبولیت اور عدم قبولیت کے مابین جو اختلاف پایا جاتا ہے، اس میں اُن کے ادوار اور موجودہ ادوار کا فرق