کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 9
پاکستان میں عربی زبان کے فروغ کے لئے کوشش: پاکستان اور عرب ممالک کے مابین تعلقات کی استواری کے لئے نیک فال ہے مگر اب تک اس کی کیفیت یہ تھی کہ ؎ زبانِ یارِ من تُرکی ومن تُرکی نمے دانم اردو ان کو نہیں آتی تھی، عربی سے ہم کورے تھے، اس لئے دوستی کچھ زیادہ پر لطف نہ رہی۔ چنانچہ حکومتِ پاکستان نے اس کا احساس کیا اور عربی کے فروغ کے لئے مناسب کوشش شروع کر دی لیکن اس کا سلسلہ ’’تعلیم و تعلم‘‘ سے آگے نہیں بڑھا۔ مناسب یہ تھا کہ عربی افاضل کی کم از کم اتنی حوصلہ افزائی کی جاتی جتنی انگریزی خوانوں کی کی جاتی ہے ورنہ برائے ثواب اسے لوگ پڑھنے سے رہے۔ کیونکہ حکومت نے عربی کے فروغ کے لئے جو کوششیں شروع کی ہیں ان کا محرک صرف سیاسی داعیہ اور ضرورت ہے، قرآن و حدیث کی عربی زبان سے مناسبت پیدا کرنے کا جذبہ نہیں ہے ورنہ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثواب کیا ہو سکتا ہے؟ جب تک عربی سے کورے حکمران اور حکام باقی ہیں وہ جیتے جی تو یقیناً عربی کے فروغ اور اس کو اہمیت دینے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش مشکل سے ہی کریں گے۔ کیونکہ اس طرح ان کی اپنی قمت گر جاتی ہے۔ یہ کس قدر آزار دِہ المیہ ہے کہ ربع صدی گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک انگریزی سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ ہم اس زبان کے حصول کے خلاف نہیں ہیں، دراصل ہم مخالف اس کے غلبہ اور تسلط کے ہیں۔ جہاں تک بیرون ممالک سے رابطہ کے لئے اس کی ضرورت ہے یا سائنسی قسم کی فنی ضرورت کے لئے اس زبان کی طرف رجوع کرنے کی بات ہے اس حد تک اس کو نطر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کو معیار فضیلت بھی قرار دیا جائے؟ ملک و ملت کی خود داری کی توہین کے مترادف ہے۔ دین و ایمان کا اولین سرمایہ اور ہبط جبرائیلی عربی زبان ہے۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام اور مملکتِ اسلامیہ جمہوریہ۔ ظاہر ہے اس صورت میں عربی زبان کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔ مگر افسوس! ہمارے آقا، رہنما اور حکمران وہ طبقہ ہے جو نہیں جانتا عربی کیا شے ہے اور کس سے کھائی جاتی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ دریا پر پل بنانے کے لئے جس انجینئر کا انتخاب کیا جائے وہ اس فن کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو۔ سرکاری مذہب اسلام مگر سرکار، اسلام کی اصلی زبان سے بالکل ناواقف، اتنا مضحکہ خیز اور بے جوڑ ٹانکا ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ اگر عربی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کو اہمیت بھی دیجئے ورنہ واویلا چھوڑ دیجئے۔