کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 8
اس کانفرنس میں ہندوستان سے پادریوں کا ایک گروپ بھی شریک ہو تھا، اس نے اس میں یہ رپورٹ دی: ’’یہاں کے باشندوں کی اکثریت پیری مریدی کے رجحانات کی حامل ہے۔ اگر اس وقت ہم کسی ایسے غدار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں جو ظلی نبوت کا دعویٰ کرنے کو تیار ہو جائے تو اس کے دعوائے نبوت میں ہزاروں لوگ جوق در جوق شامل ہو جائیں گے لیکن مسلمانوں میں سے اس قسم کے دعوٰے کے لئے کسی کو تیار کرنا ہی بنیادی کام ہے ....... ان حالات میں ہمیں کسی ایسے منصوبہ پر عمل کرنا چاہئے جو یہاں کے باشندوں کے داخلی انتشار کا باعث ہو۔‘‘
(دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا رپورٹ کانفرنس منعقدہ ۱۸۷۰ء)
علامہ اقبال کے نزدیک بھی یہ فرقہ ضالہ انتشار پسند اور غدار ہے۔‘‘ پنڈت نہرو کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے مقالہ اسلام اور ہندوستان کے ساتھ بہتری نیتوں اور نیک ترین ارادوں میں ڈوب کرلکھا۔ میں اس باب میں کوئی شک و شبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘
کچھ پرانے خطوط مرتبہ جواہر لال نہرو و مرجمہ، عبد المجید الحریری ایم اے ص ۲۹۳
مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی
بہرحال ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اب ہنگامی نوعیت کا نہیں رہا۔ اس کو بنیادی طور پر حل ہو جانا چاہئے۔ ربوہ کی ریاستی حیثیت کو ختم کر دینا چاہئے۔ اس کے تہہ خانوں سے اسلحہ برآمد کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ ان کے امام مرزا ناصر کو گرفتار کر کے ان کی عسکری اور خفیہ سیاسی سکیموں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ہمیشہ کے لئے یہ قصہ ختم ہو جانا چاہئے۔
جن طلبہ پر زیادتی کی گئی ہے ان کی تلافی کی کوئی معقول صورت پیدا کر کے ان کی داد رسی کی جائے۔
علمائے ملّت نے متفقہ طور پر اس المیہ کی سخت مذمت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا ایک حصہ ہے اور کلیدی اسامیوں پر جتنے مرزائی فائز ہیں۔ وہ بھی مرزائیوں کی دھاندلیوں میں ان کے ساتھ عملاً شریک رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی یہ کلیدی اسامیاں ختم ہونا چاہئیں۔ ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جانے کا اندیشہ ہے کیونکہ بات اب بزرگوں کے ہاتھ سے نکل کر لڑکوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ اگر حکومت نے صورتِ حال کی اس نزاکت کا احساس نہ کیا تو یہ اس کی سیاسی بے بصیرتی کی دلیل ہو گی۔