کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 7
کیا ربوہ قادیانیوں کی الگ ایک ریاست ہے؟ ’’پشاور سے آنے والی بارہ ڈاؤن چناب ایکسپریس پر ربوہ ریلوے سٹیشن پر ایک فرقہ (مرزائیہ) کے تقریباً پانچ ہزار افراد نے ملتان کے نشتر میڈیکل کالج کے ۱۶۰ پردیسی طلبہ پر حملہ کر دیا، حملہ آور خنجروں، لاٹھیوں، تلواروں، ہاکیوں، سوؤں سے مسلح تھے۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے طلبہ کا سامان ڈبوں سے باہر پھینک دیا اور انہیں بالوں سے پکڑ کر پلیٹ فارم پر گھسیٹا گیا۔ اسی حملہ کے نتیجہ میں ۴۵ طلبہ سخت زخمی ہو گئے جن میں تیرہ کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ یہ حملہ ۴۵ منٹ تک جاری رہا‘‘ (نوائے وقت و مساوات، ۳۰؍ مئی) طلبہ کے خلاف اگر اہلِ ربوہ کو کوئی شکایت تھی تو عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ ان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی تھی لیکن خود بڑھ کر ’’خود مدعی اور خود جج‘‘ ہونے کی بدترین مثال قائم کر کے انہوں نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ وہ الگ ایک ریاست ہے اور ان کا اپنا سب سے جدا ایک نظام عدالت ہے۔ اس کا دوسرا پہلو جو سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ: ربوہ میں قادیانی مومنین کے لئے امام جماعت احمدیہ کی مرضی اور ایماء کے بغیر کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے اس شرمناک دھاندلی کے پس پردہ جو ہاتھ کار فرما ہو سکتا ہے وہ یقیناً مرزا ناصر کا ہی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اس لئے گرفتار کرنا تھا تو سب سے پہلے مرزا ناصر کو گرفتار کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس فتنہ اور اس سارے المیہ کا بنیادی کردار وہ خود ہیں۔ حکومتِ پاکستان سے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلم فوجی ماہرین کے ذریعہ پورے ربوہ کی آبادی اور علاقہ کی تلاشی لے اور اسلحہ کے جو انبار انہوں نے لگا رکھے ہیں ان پر قبضہ کر لے اور در پردہ جو سکیمیں اور منصوبے مرتب کیے گئے ہیں ان کا سراغ لگائے کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ اہل ربوہ کی طرف سے کسی بھی وقت کوئی بڑا اقدام کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ پوری جماعت پورے ملک کے لئے ایک عظیم آزمائش اور فتنہ ہے، کیونکہ ان کی تخلیق سے غر ہی ’’فتنہ پروازی‘‘ تھی۔ ۱۸۶۹ء میں حکومت برطانیہ نے ایک کمیشن کو ہندوستان بھیجا تھا تاکہ ان کو رام کرنے کے لئے ان کا مزاج معلوم کرے۔ ۱۸۷۰ء میں اسی وفد نے وائٹ ہال لندن میں ایک کانفرنس میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ سر ولیم ہنٹراس میں لکھتا ہے کہ: ’’مسلمانوں کا مذہب یہ عقیدہ ہے کہ وہ کسی غیر ملکی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لئے غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کرنا ضروری ہے۔‘‘