کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 5
آتے ہیں۔ تین دن یہی کچھ ہوتا ہے۔ ثمامہ نہایت گستاخی کرتا ہے اس خیال سے کہ یہ لوگ مجھے قتل تو کر ہی دیں گے میں کیوں نہ اپنی بھڑاس نکال لوں۔ لیکن اس کی امید کے برعکس خلق مجسم اسے رہا کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ رہائی کے تھوڑی دیر بعد ثمامہ واپس آن کر اسلام قبول کر لیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ظاہری طور پر تو آزاد کر دیا ہے لیکن اندر قفل ڈال دیئے ہیں۔ یہ ہے خلقِ عظیم کا ثمرہ! افسوس آج اسلام کو تلوار سے پھیلانے کا طعن دینے والے اسلامی تبلیغ کے ایسے واقعات کو بھی سامنے رکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ اسلام تو ایمان کی تکمیل کا راستہ صرف اخلاق حسنہ کو ہی قرار دیتا ہے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین مدیر اعلےٰ نے یہ تقریر ۱۹؍ مارچ ۱۹۷۴ کو ریڈیو پاکستان سے کی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے ارتقائی مدارج اُن کی اپنی اور اُن کے صاحبزادے کی تحریروں کی روشنی میں درج ذیل سطور میں ہم مرزا صاحب کی نبوت کے ارتقائی مدارج درج کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ارتقائی مدارج خود منہاج نبوت کے شان کے خلاف ہیں لیکن مرزا صاحب ایک مبلغ سے مناظر۔ مناظر سے مصنف اور مصنف سے واعظ کی حیثیت میں متعارف ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے محدث کا روپ دھارا۔ پھر مجدد کے مرتبہ پر فائز ہوئے اور بالآخر نبوت کا دعویٰ کر ڈالا۔ مدارج ’’جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا احترام کرے۔ نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوئی ہے۔ وہ ایک اُمت بنائے جو اس کو نبی سمجھتی ہو اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہو۔‘‘ (آئینۂ کمالاتِ اسلام۔ صفحہ ۳۴۴) ’’آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرما دیا۔‘‘ ’’مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں کی جماعت سے جا ملوں۔ ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘ ’’اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا۔‘‘ ۲۔ مرزا صاحب بطور محدث یہ عاجز اللہ تعالیٰ کی طرف سے محدث ہو کر آیا ہے اور محدّث بھی ایک معنی سے نبی ہوتا ہے۔ اگر خدا سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتاؤ اس کو کس نام سے پکارا جائے۔‘‘ ۳۔ تکمیلِ نبوت مرزا صاحب کا ارشاد ہے کہ ’’میں جس طرح قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام تعین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ۲۱۱)