کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 45
کتاب میں تاریخی پس منظر کے ساتھ قدیم و جدید کی آمیزش پر زور دیا گیا ہے اور اتحاد کے لئے شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے فلسفہ ’الجمع بین المختلفات‘ کو لائحہ عمل بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔ مولانا ہاشمی نے کامیابی سے ’جامعہ محمدی‘ کا تعارف پیش کیا ہے۔ دورانِ مطالعہ مندرجہ ذیل خامیاں محسوس ہوئی ہیں جنہیں اگلے ایڈیشن میں درست کر دیا جائے تو کتاب کی وقعت بڑھ جائے گی۔ ۱۔ مؤلف نے فقہی مسالک میں ’دہلوی فقہ‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ دہلوی فقہ، حنفی فقہ ہی ہے۔ ۲۔ فتاویٰ تا تار خانیہ کے مؤلف حنفی تھے۔ اسی طرح فتاویٰ عالمگیری بھی حنفی مسلک کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ ۳۔ کتاب میں کہیں ہجری سن لکھا گیا ہے اور کہیں عیسوی۔ مثال کے طور پر ص ۸ پر جامعہ کی تاریخ تاسیس ۱۸ محرم ۱۳۵۲ھ بتائی گئی۔ ص ۱۰ پر لکھا ہے اس کے مقاصد و عزائم ۱۹۴۸ء میں رجسٹرڈ کرائے گئے۔ ہر دو جگہ ایک ہی کیلنڈر عیسوی یا ہجری استعمال ہوتا تو قاری درمیانی عرصے کا صحیح اندازہ کر سکتا۔ ۴۔ ’اطلبوا العلم ولو کان بالسین‘ مشہور مقولہ ہے اسے حدیث قرار دینا درست نہیں۔ ۵۔ برصغیر میں مسلمانوں کا دورِ زوال اورنگ زیب عالمگیر کی وفات ۱۷۰۷ء سے شروع ہو گیا تھا۔ ص ۳۶ پر ۱۷۱۲ء کو دورِ تنزّل کا آغاز قرار دیا گیا ہے۔ ۶۔ ۱۹۵۱ء میں کراچی میں ۳۱ علماء شریک ہوئے تھے اور اسلامی دستور کے ۲۲ بنیادی نکات پیش کئے تھے۔ ص ۱۱۳ پر تعدادِ علماء ۲۷ بتائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ہماری رائے میں ’الجمع بین المختلفات‘ کے فلسفہ کا محرک تو بڑا نیک جذبہ ہے اور مرض ’انتشار‘ کی تشخیص بھی درست ہے لیکن پیش کردہ علاج صرف اہری عوارض تک محدود ہے۔ لہٰذا جب تک بنیادی خرابی اور جڑ کا مداوا نہ کیا جائے اتحاد کا خواب شرمندۂ تعیر نہ ہو سکے گا۔ قرآن کریم نے افتراق کا باعث تو واقعی ’بغیاً بینہم‘ کو قرار دیا ہے لیکن اس کا علاج باطنی طور پر ’تقویٰ‘ اور ظاہری طور پر اعتصام بحبل اللہ‘ بتایا ہے جو تقویٰ ہی کی بنا پر ممکن ہوتا ہے۔ اسی لئے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا سے پہلے اتقوا اللہ کا ارشاد فرمایا۔ تقویٰ کی مثبت صورت اللہ کے لئے یکسوئی یعنی توحید اور خیفیت ہے گویا اتحاد کا انحصار توحید پر ہے اور توحید کا پورا نقشہ دین ابراہیمی کی آخری اور مکمل صورت سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ملتا ہے۔ لہٰذا تمام اختلافات کا حل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری وابستگی یا دوسرے لفظوں میں صرف ’اتباعِ کتاب و سنت‘ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مسلک اعتدال کے ذیل میں جس رواداری