کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 44
اجر جزیل عنایت کرے۔ اس کتاب کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے، بلکہ چاہئے کہ ہر مسلم اس کا مطالعہ کرے اور اسے اپنے پاس رکھے۔ جو لوگ اسلام کو ایک فرسودہ اور دقیانوسی نظام تصور کرتے ہیں، اس کے مطالعہ کے بعد ان کو یقیناً اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ مختلف ادیان اور اقوام کے معاشرتی نظاموں کے جو تقابلی ابواب پیش کئے گئے ہیں ان کا مطالعہ ان لوگوں کو بالخصوص ضرور کرنا چاہئے جو اسلام کے بجائے اغیار کی تہذیب کے گن گاتے رہتے ہیں۔ اس کتاب میں ’انگریزی‘ کتابوں کے حوالوں کی بڑی بھرمار ہے، گو یہ کچھ بری بات نہیں لیکن مصلحت اسی میں ہے کہ اب اقوام مغرب کو استناد کی حدود سے باہر دھکیل دیا جائے بلکہ جب تک مسلمان ایک غالب تہذیب کی حیثیت سے نہیں ابھرتے اس وقت تک مغربی مفکرین کو اُٹھا کر بالکل پس پردہ پھینک دیا جائے تاکہ کم از کم ہماری نئی نسل ’معیار و استناد‘ کے لئے اغیار کی طرف دیکھنے کی فرصت نہ پا سکے، یقین کیجئے! گھر میں بہت کچھ ہے ان کو آوارہ صحرا نوروی کے خبط سے بچائیے۔ (۳) نام کتاب : تحریک جامع محمدی۔ فکر و فلسفہ تالیف : سید محمد متین ہاشمی (ایم۔ اے) صفحات : ۲۸ صفحات قیمت : ۴ روپے ناشر : شعبۂ تصنیف و تالیف، جامعہ محمدی شریف، جھنگ، پاکستان مولانا محمد ذاکر ایم۔ این۔ اے۔ نے ۱۳۵۲ھ میں ضلع جھنگ کی ایک قدیم بستی محمدی شریف میں ایک دینی دار العلوم کی بنیاد رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج یہ دینی دار العلوم ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ شیخ الجامعہ مولانا محمد متین ہاشمی نے اس تحریک کے فکر و فلسفہ پر یہ کتاب لکھی ہے۔ امتِ مسلمہ کی تباہی کا سب سے بڑا سبب افتراق و انتشار ہے۔ تحریک جامعہ محمدی کے فکر و فلسفہ میں ’اتحاد بین المسلمین‘ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح آج ہمارا معاشرہ دین اور دنیا کی تفریق کا شکار ہے اور ہمارے مروجہ نظام ہائے تعلیم اس خلیج کو بڑھا رہے ہیں۔ دینی دار العلوموں سے فارغ التحصیل ہونے والے دنیوی معاملات سے کورے ہوتے ہیں اور کالجوں کے پڑھے لکھے لوگ اسلام کے بارے میں کوئی قابلِ رشک معلومات نہیں رکھتے۔ جامعہ محمدی قدیم و جدید اور دین و دنیا کا امتزاج چاہتی ہے۔