کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 43
صفحات : ۳۸۸ قیمت : ۹ روپے ملنے کا پتہ : المکتبۃ العلمیہ. ۱۵ لیک روڈ. لاہور اسلام دین رہبانیت نہیں ہے اور نہ اس کی حیثیت پرائیویٹ مذہب کی ہے بلکہ یہ ایک جامع نظام حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے، انفرادی ہوں یا اجتماعی۔ عہد حاضر نے، انسان کی منفرد حیثیت کو گو ختم نہیں کیا لیکن ابنائے جنس کے ساتھ اس کے میل ملاپ میں اتنا امتزاج پیدا کر دیا ہے کہ اب اس کی الگ حیثیت دھندلا گئی ہے۔ معاشرتی نظام سے مراد ایک ایسا سلیقہ حیات ہے جس میں باہمی حقوق اور حدود کا تعین کیا جاتا ہے، جو جس ذہن اور استعداد کا مالک تھا، اس نے اسے خود ہی اپنے رنگ میں ترتیب دیا لیکن خدا سے پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی، اس لئے دنیا میں جتنے غیر اسلامی نظام معاشرت پائے جاتے ہیں وہ بس ایک ’گزارہ‘ ہیں، نظام نہیں ہیں، کیونکہ ان میں نظام والی جامعیت اور خاصیت والی بات نہیں ہے۔ ان کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ان میں خدا کے حقوق اور تعلق کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی، دوسرا یہ کہ ان سب کی حیثیت حقیقۃً غیر سرکاری کی ہے، کیونکہ وہ ایک غالب مگر محدود گروپ کی مرضی اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے ان سب کی حیثیت حقیقۃً غیر سرکاری کی ہے، کیونکہ وہ ایک غالب مگر محدود گروپ کی مرضی اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے اس امر کی ضرورت تھی کہ دنیا کو ایک ایسے نظامِ معاشرت سے آگاہ کیا جاتا جو جامع بھی ہو اور غیر جانبدار نہ بھی۔ اس کے دوش پر کسی فرد واحد یا چند افراد کے مفاد کی ضیافت طبع کے سامان کرنے کا بوجھ نہ ہو۔ بلکہ بے آمیز اور بے لوث ہو اور سب کے لئے یکساں ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسا نظام صرف وہی ذات مہیا کر سکتی ہے جو سب کی مالک ، خالق اور مربی ہے۔ یعنی خدا۔ بس کتاب ’اسلام کا معاشرتی نظام اسی سلسلے کی ایک کڑی اور کوشش ہے، جس میں معاشرتی نظام کی ضرورت اس کے تاریخی مختلف ادوار اور سب کی جداگانہ خصوصیات کے بعد اسلامی نظام معاشرت کی جامعیت اہمیت، افادیت اور اس کے انواع و اقسام کی پوری پوری نشاندہی کی گئی ہے۔ وحدت نسل انسانی اور اس کی فکری وحدت، شرف انسانیت کے متعلقات، اس کے بعد معاشرتی اداروں کی تفصیل کا ذکر ہے۔ مثلاً خاندان، حقوق نسواں، حقوق والدین، اولاد، قرابت داروں، مساجد، مکاتب، ریاست کے حقوق و حدود کا تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں ’ثقافت کی تشریح اور اسلامی ثقافت کا مابہ الامتیاز بتایا گیا ہے۔ اور یہ بحث بالخصوص قابلِ دید ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فاضل نوجوان کو خدمتِ دین کی مزید توفیق دے اور اپنی جناب سے اس کو خصوصی