کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 42
’’لوگوں کو حدیث سے بدظن کر کے فقط قرآن تک محدود رکھا جائے تاکہ قرآن کی من مانی تاویل کے لئے گنجائش نکل سکے۔‘‘ (ص ۱۱) ہم بہرحال منکرین کی اس نیک نیتی سے واقف نہیں ہیں جس کا علوی صاحب نے ذکر کیا ہے۔ لیکن ہم اسے تسلیم کئے دیتے ہیں کیونکہ جناب فرماتے ہیں کہ وہ ان کے ہاں سے تشریف لا رہے ہیں۔ صاحب البیت ادری مافیہ۔ زیرِ نظر کتاب کے بعض مقامات میں بڑی دلکشی، سوز، ادبی چاشنی اور دلچسپ تلمیحات ملتی ہیں کہ پڑھ کر طبیعت وجد میں آجاتی ہے۔ پرویز کی آغوش، خدا فراموش ماحول اور خود فراموش نظامِ تعلیم کے نرغے میں رہ کر ہم سوچتے ہیں کہ: جناب پرویز کی ساحرانہ آغوش، ماحول خدا فراموش اور نظام تعلیم خود فروش جیسے نرغوں سے نکل کر کتاب و سنت کی یوں خدمت کرنا، یہ رب کی دین اور توفیقِ الٰہی کا کرشمہ ہے، جس پر ہم عزیز موصوف کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ علامہ موصوف نے شروع میں لکھا ہے کہ مدارس نظامیہ میں سوال کرنا گستاخی تصور کیا جاتا ہے (ص ۶) ہمارے لئے انکشاف ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کے بالکل خلاف ہے، جتنی آزادی یہاں ہے شاید ہی اور کہیں ہو۔ ہاں احترام ضرور ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ بخلاف جدید درس گاہوں کے۔ ایک اور مقام پر فاضل موصوف لکھتے ہیں کہ: جمع احادیث کا اصل سبب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جاذب اور محبوب شخصیت تھی۔ مسلمانوں کو آپ سے جو قدرتی اور والہانہ محبت تھی اس کے نتیجے میں احادیث کی تدوین ہوئی (ص ۱۲ ملخصاً) ہمارے نزدیک اسے اگر یوں بیان کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا کہ: محبت کے ساتھ شرعی ضرورت تدوینِ حدیث کی موجب بنی۔ یعنی محبت کا تقاضا تھا کہ محبوب کی باتیں کی جائیں، شرعی ضرورت تھی کہ زندگی کے مختلف مرحلوں میں ان سے شرعی رہنمائی حاصل کی جائے۔ اہلِ تعطیل نے خدا کو تخلیق کے بعد معطل کر کے رکھ دیا اور ہمارے منکرین حدیث وہ اہلِ تعطیل ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معطل کر کے رکھ دیا ہے کہ ان کی پاک زندگی کو اپنی امت کے لئے بالکل غیر متعلق شے بنا دیا ہے۔ خدا ان کو سمجھ دے۔ (۲) نام کتاب : اسلام کا معاشرتی نظام مؤلّف : پروفیسر خالد علوی ناشر : المکتبۃ العلمیہ. لاہور