کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 41
میں سے عیسیٰ بن ابان اور امام کرخی رحمہا اللہ کا مذہب ہے۔
گیارہویں طبقہ کا ارشاد ہے، غیر فقیہ صحابی کی روایت قبول نہیں کی جائے گی (جو قیاس کے مخالف ہو گی)
بارھویں وہ لوگ ہیں جو ان روایات کو قبول نہیں کرتے جو ان کے زعم کے مطابق ظاہر قرآن کے خلاف ہیں (الصواعق المرسلۃ ج ۲، ص ۴۳۴ تا ۴۴۱)
اگر خالد علوی صاحب اس کتاب کو بھی سامنے رکھ لیتے تو انہیں انکارِ حدیث کی باریک سے باریک چالوں اور مغالطوں کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی۔ اگر اسی جامعیت کے ساتھ ان پر بھی روشنی ڈالی ہوتی تو کتاب کی افادی حیثیت دوبالا ہو جاتی۔
تیرہواں ٹولہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے ’ردِ احادیث‘ کے لئے نظریۂ توحید کو استعمال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: اسلام کا نصب العین یہ ہے کہ عبد اور معبود کے درمیان دوسرا کوئی واسطہ نہ رہے، ان کامقصد ہے کہ حدیث و سنت کو بھی درمیان میں سے اُٹھا دیا جائے، ورنہ توحید کا اتمام نہیں ہو گا۔ یہ مسلک ہندو پاک کے منکرینِ حدیث کا ہے جن کے سرخیل آج کل جناب غلام احمد پرویز ہیں، ان کے دلائل اور بول تقریباً وہی ہیں جو امام ابن القیم کے بیان کردہ طبقات نے مہیا کئے ہیں، گویا کہ محترم پرویز ’خاتم المنکرین‘ ہیں۔
؎ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
زیر نظر کتاب ’حفاظت حدیث‘ پاک و ہند کے ان ہی منکرین حدیث کو سامنے رکھ کر ان کے وساوس اور تلبیسات کو دور کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔
ہمارے دوست خالد علوی فاضل نوجوان ہیں جو کبھی ’پرویزیت گزیدہ‘ بھی رہے ہیں جس کا انہوں نے کتاب کے دیباچے میں بھی ذکر کیا ہے کہ بالآخر مولانا مودودی کی تحریر ’منصبِ رسالت‘ کے مطالعہ سے متاثر ہو کر منکرین کے نرغے سے نکلے ہیں۔
فاضل موصوف نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک میں مقامِ حدیث کے عنوان سے ضرورتِ حدیث اور اس کی اہمیت کو دلائل سے واضح فرمایا ہے اور منکرین کے بنیادی مغالطات کی قلعی کھولی ہے اور دوسرے ’حفاظتِ حدیث‘ میں منکرین کے اس واویلا کا جائزہ لیا ہے کہ: جب حدیث خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کر کے نہیں دی تو لوگوں کا کیا اعتبار؟ سہو و خطا کے امکان کے ہوئے ہوئے اس کو کیسے ماخذ دین بنایا جا سکتا ہے۔
کتاب کا اسلوب استدلال علمی، منطقی اور قرآنی ہے۔ انداز بیان آسان، عام فہم، عبارت نہایت شستہ وار رواں ہے دلائل میں کافی جامعیت ہے۔
عزیز محترم پروفیسر علوی صاحب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ: منکرین حدیث چاہتے ہیں۔