کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 40
خوئے تسلیم و رضا میں مزید آب و اب پیدا ہو، کیونکہ فکر و نظر میں استحکام، عملی مواقع مہیا کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ مذبذبین یہ وہ اہلِ تشکیک اور اہلِ بدعت لوگ ہیں جو سنت کے سلسلے میں ظنون فاسدہ، ریب، تذبذب اور شک و شبہات میں پڑ گئے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم ان کے رحم و کرم پر رہ یا ہے۔ امام حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ (ف ۷۵۱ھ) نے الصواعق المرسلة علي الجھمية والمعطلة میں اس موضوع پر بما لا مزید علیہ روشنی ڈالی ہے۔ اور حق ادا کر دیا ہے۔ اس وقت راقم الحروف کے سامنے اس کی مختصر ہے جو شیخ محمد بن الموصلی نے مرتب کی تھی۔ جسے جلالۃ الملک عبد العزیز آلِ سعود کے خرچہ سے شائع کیا گیا تھا۔ ان مذبذبین کی کئی قسمیں ہیں: ایک کا کہنا ہے کہ: چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سہو و خطا سے پاک نہیں ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت شرعی ماخذ نہیں بن سکتی۔ خوارج کے اسلاف کا یہی مذہب تھا۔ ایک اور گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ: صرف وہ حدیث قبول کی جائے گی، جو قرآن کے موافق ہو گی۔ تیسرے کہتے ہیں: متواتر احادیث تو مانیں گے، احاد نہیں۔ چوتھے طبقے کا کہنا ہے کہ صرف وہ روایات قبول کی جائیں گی جو اہل بیت کی معرفت پہنچیں گی۔ پانچویں گروہ کا خیال ہے کہ: جمل اور صفین کی لڑائیوں میں جو صحابہ شریک رہے ان کی روایات قبول نہیں کی جائیں گی۔ چھٹا ٹولہ شرط عاید کرتا ہے کہ صرف وہ روایت قبول کریں گے جن کے راوی چار ہوں اور وہ ایک دوسرے سے دور رہنے والے ہوں۔ ساتویں صاحب کہتے ہیں کہ جس روایت کے مضمون میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے نزاع نہ کیا ہو، صرف وہ روایت قبول کی جائے گی۔ آٹھواں گروہ کہتا ہے کہ صرف ان احکام میں خبر واحد قبول کی جائے جو شبہات سے ساقط نہیں ہوتے یعنی حدود میں نہیں۔ یہ معتزلہ کا مسلک ہے۔ نہم وہ طائفہ ہے جو یہ شرط عائد کرتا ہے کہ جب تک کوئی اور ثقہ راوی بیان نہ کرے خبر واحد نہیں قبول کی جائے یعنی ایک سے زائد راوی، وہ ایک ہو یا زیادہ، امام ابو بکر رازی نے اسے بعض حنفیوں کا مسلک قرار دیا ہے۔ دہم وہ ہیں جن کا اصرار ہے کہ عموم البلوی کی صورت میں خبر واحد قبول نہیں کی جائے گی، یہ احناف