کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 4
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنائے بغیر نورِ ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ سیرت پاک کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی تبلیغ کیلئے خلقِ عظیم ہی کو اپنایا اور اسی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں اخلاق حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ امام غزالی کی احیاء علوم الدین سے چند ایک ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔
۱۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! دین کیا ہے؟ فرمایا: اچھا خلق۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ فرمایا: اچھا خلق۔
۳۔ نیز فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جنت میں صرف اچھے خلق والا ہی داخل ہو گا۔
مسند احمد کی ایک روایت میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف بھی اچھے اخلاق سے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا۔ ما الایمان؟ قال: السماحة والصبر یعنی ایمان کیا ہے؟ فرمایا: نرمی اور صبر۔
قرآن کریم میں برائی کے مقابلہ میں جیت کے لئے جن دو اخلاقی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا اشارہ ہے۔ مذکورہ بالا مسند احمد کی روایت میں ان کا صراحتاً ذکر ہے۔ ارشاد ہے:
﴿ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴾ یعنی برائی کا دفاع اچھے اخلاق سے کیجئے۔ آپ اپنے دشمن کو بھی گہرا دوست بنا لیں گے۔
احادیث اور سیر کی کتابوں سے آپ کی نرم دلی اور صبر کے دو واقعات ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ آپ تبلیغ کے لئے طائف میں بنو ثقیف کے پاس جاتے ہیں اللہ کا پیغام سناتے ہیں لیکن جواب گالیوں اور پتھروں کی صورت میں ملتا ہے۔ زیادتی کی حد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاں بچانے کے لئے بھاگتے ہیں تو کافر خونخوار کتے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ نہایت تھکاوٹ اور زخمی حالت میں جبریل امین اللہ کی طرف سے یہ پیام لے کر آتے ہیں کہ اگر خواہش ہو تو ظالموں کو وادیٔ طائف کے دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر ہلاک و برباد کر دیا جائے لیکن اس حالت میں بھی رحمۃٔ للعالمین سے یہ جواب ملتا ہے کہ اگر میری دعا سے یہ تباہ ہو سکتے ہیں تو یہی دعا میں ان کی ہدایت کے لئے کیوں نہ کروں؟ لہٰذا یہ دعا کی۔ اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون یعنی اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے یہ بے خبر ہیں۔
۲۔ نجد کا والی ثمامہ بن اثال مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے تو آپ اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھنے کا حکم دیتے ہیں۔ پھر جب اس کی مزاج پرسی کے لئے اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ گالیاں دیتا ہے۔ صحابہ کو اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن آپ صبر سے واپس چلے