کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 37
ہے۔ کمی بیشی کے لحاظ سے اور اسی لحاظ سے کہ حق علی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ موجودہ قرآن میں دونوں طرح سے تحریف ہو گئی ہے اور یہی ہمارا مقصدہے۔ قارئین سے درخواست ہے اور شیعہ بھائیوں سے اپیل ہے کہ وہ غور فرمائیں کہ، شیعہ حضرات جس نام خلافت کے داعی ہیں، اس کے بھی امام غائب، صدیوں سے غائب، ان کے ساتھ ان کا قرآن بھی غائب اور صدیوں سے غائب۔ آخر وہ کس منہ سے شیعی نظامِ سیاست کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں؟ قوتِ حاکمہ اور نظامِ خلافت دونوں غائب ہونے کے بعد شیعوں کے پاس ملت اسلامیہ کے لئے اور کیا منشور ہے؟ تقیہ، متعہ، سب اور موجودہ یزید صفت حکمرانوں کی خوشامد اور اطاعت؟ ’’کیا یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا‘‘ باقی رہیں ان کی حدیثیں؟ سو وہ زیادہ اقوال اہلِ بیعت اور ائمہ کے ارشادات ہیں۔ ان کا ان کے نزدیک ’قولِ نبی‘ ہے۔ اور وہ بھی جتنی روایات ہیں، کتبِ رجال و تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے! تقریباً تقریباً اکثریت ان میں وضاع اور کذابوں اور تقیہ بازوں کی ہے اگر کوئی صاحب ان سے کہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی! تو بھلا کیا جواب ہو گا؟ شیعوں کی اخلاقی اور سماجی اقدار حکمران اقوام اونچے اخلاق اور بلند کیریکٹر کی حامل ہوتی ہیں، جس کے آئمہ بھی حامل تھے۔ مگر بعد میں ان کے نام لیوا شیعوں نے اخلاق کے جو نمونے چھوڑے ہیں۔ وہ کچھ زیادہ بلند نہیں ہیں۔ یعنی ایک تقیہ باز فرقہ پر کون اعتبار کرے گا۔ کہ خدا جانے اس نے جو بات کہی ہے وہ اس کے دل کی بات ہے یا کچھ اور؟ متعہ کا باب کھول کر قلب و نگاہ کو جس قدر مکدر رکھنے کے سامنے کر ڈالے ہیں، اس نے جنسی انار کی کی حد کر دی ہے پھر جو دنیا سے جا چکے، ان تک کو ’سب‘ بکنا آخر کون سا معیار فضیلت ہے کہ دنیا خلافت ان کے سپرد کرے؟ قال ابو جعفر علیه السلام التقية من دینی ودین اٰبائی ولا ایمان لمن لا تقیه له (اصول كافی ص ۲۸۴) حضرت امام باقر فرماتے ہیں کہ تقیہ میرا اور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے۔ جو تقیہ کے سرمایہ سے خالی ہے، وہ ایماندار نہیں ہے۔ غور کیجئے یہ لوگ پوری قوم کو ایک دوسرے کے خلاف کس بے اعتمادی کا درس دینے لگے ہیں۔ اور جرأت مند قوم کو کس بزدلی اور بے ایمانی کا درس دینے لگے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بات حضرت امام باقر نے بالکل نہیں کہی۔ وہ بہادر، اور اصحاب عزیمت لوگ تھے۔ قال ابو عبد اللّٰه علیه السلام یا سلیمان انکم علی دین من کتمه اعزه اللّٰه ومن ازاعه اذله اللّٰه (اصول كافی ص ۴۵۷)