کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 35
بعد میں ان کے نام پر گھڑ لی گئی ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ بھی وقت ضائع نہ کریں، ہوا میں تیر نہ چلائیں۔ وہ باتیں کرنا سیکھیں جو ہو سکیں۔ یوں مفروضوں پر اپنی صلاحیتیں نہ گنوائیں۔ اور نہ ہی باہمی کدورتوں کو فروغ دینے کا موجب بنیں۔ اگر ان کا نام لیتے ہو تو یزید صفت حکمرانوں کو راہ پر لاؤ۔ ورنہ شور مچا مچا کر ہمارے کان نہ کھاؤ، کچھ ہوش کرو، آخری عمر میں ہی کچھ ہوش کی باتیں کر دیکھو۔
شیعوں کا قرآن و حدیث ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسے ’مفروضی‘ فرقہ سے پالا پڑ گیا ہے جو آئمہ معصومین کے نام پر بات سیاسی اور خلافت کی کرتا ہے مگر ان کا اپنا حال یہ ہے کہ:
ان سے خلافت کے لئے آدمی مانگو تو کہتے ہیں، اس وقت نہیں ہیں کبھی آئیں گے، نظام مملکت کے لئے کوئی دستوری اور آئینی کتاب طلب کرو تو فرمائیں گے کہ وہ بھی امام کے ساتھ کہیں غائب ہے۔ تو ان سے کوئی پوچھے کہ سامان پاس نہیں ہے تو تم یہاں کیا لینے آئے ہو، اور ہم سے کیا چاہتے اور مانگتے ہو؟
اصل بات یہ ہے کہ ان کو کام سے غرض نہیں ہے، مفروضی لوگ ہیں۔ شیخ چلی کی طرح باتیں کر کر کے دل بہلاتے رہتے ہیں۔ لیکن عملاً جب کبھی یہ لوگ نظر آتے ہیں، عموماً یزید صفت حکمرانوں کی گود میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر کوئی کیا سمجھے کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟
دیکھئے! قرآن کے بارے میں ان کا یہ نظریہ ہے کہ اس میں کمی بیشی کی گئی ہے۔
باب فيه نكت ونتف من التنزيل في الولاية (اصول كافي ص ۲۶۱)
یہ باب اسی بیان میں ہے کہ امامت کی آیتیں قرآن سے نکال دی گئی ہیں۔
اس کے بعد متعدد روایات بیان کی گئی ہیں جن سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ فلاں فلاں آیتیں خارج کر دی گئی ہیں۔
وزادوا فیه ما ظھر تناکرہ وتنافرہ (اجتجاج ص ۱۳۰)
اس نے اس (قرآن) میں وہ آیتیں بڑھا دیں جن کا خلاف فصاحت و قابل نفرت ہونا ظاہر ہے۔
اصول کلینی ص ۶۷۱ مطبع کشوری میں ہے کہ حضور کے وصال پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کیا۔ لوگوں نے پسند نہ کیا اور کہا کہ ہمارے پاس جامع قرآن موجود ہے۔ ہمیں تمہارے مرتب کردہ قرآن کی حاجت نہیں۔
فقال واللّٰه ما ترونه بعد يومكم ھذا ابدا (اصول كليني)
اس پر حضرت علی بولے، خدا کی قسم! آج کے بعد تم اس قرآن کو کبھی نہیں دیکھو گے!
حضرت امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام مہدی اصلی شکل والا قرآن لائیں گے۔ حتی یقوم القائم فاذا قام القائم قرء کتاب اللّٰه عزوجل علی حدہ (ص ۶۷۱ اصول)
تفسیر صافی ص ۱۳ (شیعہ) میں ہے: