کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 34
’’میں آپ کا مجبور غلام ہوں چاہیں تو غلام رکھ لیجئے جی چاہے تو فروخت کر ڈالئے!‘‘ طوالت مانع نہ ہوتی تو مزید مثالیں پیش کی جا سکتی تھیں۔ دانشمند کے لئے اشارہ کافی ہے) یہ تو تھی ایک نظری بحث اور تفصیل حالِ واقعی۔ ہم نے اوپر کی سطور میں مفروضہ ائمہ معصومین کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا ہے، اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم معاذ اللہ ان کو گنہگار تصور کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک نظری بحث اور حال واقعی کی ایک تفصیل تھی۔ اور وہ بھی خود شیعہ حضرات کے مفروضوں کی بنیاد پر ورنہ جہاں تک ہماری عقیدت کا تعلق ہے۔ ہم سب کو صلحائے امت اور بزرگان ملت تصور کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے مبارک عہد میں ہوتے تو ہم ان کے پاؤں دھو کر پیتے۔ اگر بقول شیعہ حضرات وہ اب بھی تشریف لاتے تو ہم ان کی راہوں پر اپنی آنکھیں بچھاتے۔ کیونکہ وہ قرآن کے پیرو کاور اور متبع سنت تھے جو حوسیّأت شیعہ نے ان کی طرف منسوب کی ہیں وہ ان سے بالکل دور تھے۔ اور اصلی موحد تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر صدہا رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ لطیفہ شیعہ دوستوں کے دانشمندانہ لطیفوں میں سے ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ عصمت آئمہ کا نعرہ لگانے والوں نے اِن ائمہ کو چھپا رکھا ہے، تاکہ ان کو ہوا نہ لگے۔ اور ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر بہ فرض محال آج وہ تشریف لے آئیں تو بھی یہی شیعہ سب سے پہلے ان کے خلاف محاذ بنائیں گے، کیونکہ یزید کو گالیاں دیتے دیتے وہ خود یزید صفت حکمرانوں سے مانوس ہو گئے ہیں۔ باقی رہے ہم؟ سو ہم ان سے کہتے ہیں کہ: جنبا! ہم سے لڑتے کیوں ہو، ان بزرگوں کو لاؤ! ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، بیعت خلافت، بیعت جہاد،اور بیعت ارادت، غرض جو بھی بیعت آپ چاہیں گے ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے دکھا دیں گے۔ مگر ان کا حال وہی ہے جو ایک مخلص پٹھان کا بیان کیا جاتا ہے کہ: اس نے کسی کافر کو دیکھ لیا، تو تلوار سونت لی اور اس سے کہا کہ کلمہ پڑھو اور مسلمان ہو جاؤ۔ ورنہ ہم تمہارا سر قلم کر کے رکھ دیں گے۔ وہ بے چارہ ہاتھ جوڑ کر بولا، کہ جناب! ہمیں مارو نہیں، ہمیں کلمہ پڑھاؤ، ہم مسلمان ہوتے ہیں۔ پٹھان بولا۔ افسوس! کلمہ ہمیں بھی نہیں آتا ورنہ آج تم کو ضرور مسلمان کر ڈالتے۔ بالکل یہی بات ان کی ہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ ہم سے لڑتے ہیں، ہم تو کہتے ہیں کہ وہ پاک لوگ ہمارے سامنے کریں تاکہ ہم ان کے حضور اپنا ہدیۂ قیادت پیش کریں ویسے بھی وہ کون ظالم اور عقل کا دشمن ہے جو ان صلحاء کے ہوتے ہوئے مسٹر بھٹو، کرنل قذافی، انور السادات، سو رہا رتو، اور شاہ فیصل کو مقدم کرے گا۔ لیکن پٹھان کی طرح یہ جواب دیتے ہیں کہ افسوس ہمارے پاس دونوں نہیں ہیں۔ ورنہ ہم ضرور بیعت کروا لیتے۔بہرحال ہمارے نزدیک وہ سب بزرگ اپنی اپنی باری بھگتا گئے ہیں۔ اور قرآن و سنت کے مطابق بھگتا گئے ہیں۔ ان کے مابین وہ رنجشیں نہیں تھیں۔ جو بعد والوں نے باہم گوارہ کر لیں ہیں۔ اور نہ ان میں وہ عملی کوتاہیاں تھیں جو