کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 33
کی اولاد کو یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کا حق ہے؟ فرمایا ہاں جانتے ہیں مگر حسد کے مارے کرتے ہیں۔ شیعوں کے ایک بڑے امام ذرارہ حضرت امام باقر کے متعلق یہ کہتے تھے: شیخ لا علم له بالخصومة (اصول كافي ۵۵۶) بابا مناظرہ کرنا جانتا ہی نہیں۔ مجالس المؤمنین اور حق الیقین (کتب شیعہ) نے حضرت علی کے بارے میں حضرت سیدہ فاطمہ کے جو ریمارک نقل کئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی عصمت کی قائل نہ تھی۔ ہم اس کے چند فقرے بغیر ترجمہ کے ذکر کرتے ہیں، کیونکہ حوصلہ نہیں پڑتا۔ خود سوچ لیجئے! اگر او (نبی) بوقت عجز بغار فرار نمود این (علی) بوقت منع وعجز درخانہ بر روئے خود فراز کرد اگر بنی دختر بعثمان داد وی (علی) دختر بہ عمر فرستاد (بی لس ص ۶۹) حضرت امیر المومنین علیہ السلام انتظار معاودت اومی کشید چون بمنزل قرار گرفت خطا بہاں درشت باسید او صیا نمود کہ مانند چنیں در رحم پردہ نشین شدہ و مثل خائباں درخانہ گریختہ الخ۔ (حق الیقین ص ۲۳۳) ترجمہ: کسی سے کرا کے دیکھ لیجئے اور پھر گریبان میں جھانک کر دیکھئے! شاید بات سمجھ میں آجائے۔ شرح میسم مطبوعہ طہران میں ہے: ھولاء یقولون لا امرۃ وانه لابد للناس من امير بن وفاجراً (شرح ميسم۔ نھج البلاغة) یہ (خوارج) کہتے ہیں، حکومت نہیں ہے، حالانکہ ضروری ہے کہ لوگوں کا کوئی امیر ہو، وہ نیک ہو یا بند (بہرحال ہو ضرور) یہ معلوم ہوا کہ امامت کے لئے عصمت کے دعوے عامیانہ ارادت مندی کا ایک گونہ اظہار ہے۔ اور کچھ نہیں۔ یہ لوگ تو عصمت انبیاء کے بھی قائل نہیں۔ عصمت امامت کو کیسے نباہ سکیں گے؟ ان کا کہنا ہے کہ عبودیت میں راسخ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انبیاء سے کسی قدر گناہ صادر ہں۔ داؤد علیہ السلام کے قصے کے بیان میں حیات القلوب میں ملّا باقر مجلسی نے یہ تحریر کیا ہے۔ از پیغمبراں گناہصادر نمی شود لیکن چوں نہایت مرتبہ کمال انسانی اقرار لعجز و ناتوانی وتذلل است و ایں معنے بدوں صدور فی جملۃ مخالفتے حاصل نہ میشود ولہٰذا حق تعالیٰ گاہے انبیاء ودوستان خودرا بخودمی گذارو کہ مکرو ہے باترک اولی ازیشان صادر کرود (صافی ترجمہ کافی مطبوعہ لکھنو کتاب التوحید ص ۲۲۹) نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت علی نے اقرار کیا کہ لست فی نفسی بفوق ان اخطیٔ ولا امن ذلک من فعل (ص ۱۷۴) میں اپنے نفس کو خطا کرنے سے بالا نہیں پاتا اور نہ اپنے فعل میں، میں مامون ہوں۔ حضرت زین العابدین نے یزید سے کہا۔ انا عبد مکرہ لک فان شئت فامسک وان شئت فبع (کافی کی کتاب الروضہ ص ۱۱۰)