کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 28
جہان آفریں راہمیں بند اوست ولیکن جہاں آخر نیّدہ اوست پھر کہا کہ عاجزی کے لباس میں اس کی سر بلندی ہے اور انسانی لباس میں وہ خدا ہیں۔ سرا فرازیش درسر افگندگی خدائیش در کسوت بندگی دیوان وفائی ہی میں ہے کہ: علی بے مثل یعنی لیس کمثلہ شےٌ ہے، وہی نور لم یزل ہے عیبوں سے پاک، مصدر کائنات اور معشوق ازل ہے۔ علی است فرد بے بدل، علی است مثل بے مثل علی است مصدر دوم علی ہست، صادر اول علی است خالی از خلل علی ہست عاری از ذلل علی است شاہد ازل علی است نور لم یزل! کہ فرد لا یزال راد جود اوست مظہرا (دیوان وفائی) پھر لکھتا ہے کہ تمام ا نبیاء اور الیاء حضرت علی کے کفش بردار ہیں اور اللہ نے اپنی بادشاہی کے سارے اختیارات اس کے حوالے کر دیئے ہیں۔ اور وہ لا مکان ہے۔ زمام ملک خویش راسپردہ حق بدست او چہ اولیاء، چہ انبیاء تمام پائے بست او نظر بہ لا مکان عنابہ ببیں مقام حیدرا (دیوان وفائی) مزید فرمایا! حضرت علی کو فنا نہیں، قیامت وہی برپا کریں گے۔ اور یہ راز قیامت میں کھل جائے گا مَا رَمَیَتَ اَذَ رَمیتَ کا مصداق کون تھا، کیونکہ علی خدا کا ہاتھ ہے اور وہ عین خدا ہے۔ چوں ایں جہاں فنا شود و علی فناش میکند قیامت اربپا شود علی بپاس میکند کہ دست دست او بود ولے خداش میکند وما رمیت اذ رمیت بر تو فاش میکند (دیوانِ وفائی) ہو سکتا ہے کہ معاصر معارف دوسروں کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیں، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ خود معارف کو معارف کے آئینے میں بھی پیش کر دیا جائے۔ آپ کے نزدیک یہ خلافت محمدیہ نیابت الٰہیہ ہے۔ تو آپ کے مقام خلافت محمدیہ یا نیابت الٰہیہ میں سرِ مُو فرق نہ تھا۔ (معارف علی فاطمہ تمبر دسمبر ۱۹۶۳ء) ہونے لگا بہتوں کو خدا کا دھوکا یہ عبد تو ملتا ہوا معبود سے ہے (معارف مذکور ص ۴۴)