کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 27
علی نے آدم و حوا کو ملایا۔ آگ کو خلیل پر گلشن بنایا، زکریا کو آرے سے بچایا، یوسف کو چاہ سے نکال کر مصر میں تخت پر بٹھایا، دیدۂ یعقوب کو نور بخشا، سلیمان کو جنّات سے چھڑایا۔ (تاریخ الائمہ ص ۵۲) اور اسی طرح حضرت داؤد کو الحان اور حضرت موسیٰ کو یدِ بیضاء عنایت کیا۔ اور جس وقت پہاڑ پر موسیٰ کو غش آیا تو دستگیری فرمائی، آسمان پر جانے کو عیسیٰ کی رہبری کی...... ؎ علی کا معجزہ اک اک ہے نادر علی کی ذات ہر شے پر قادر (تاریخ الائمہ ص ۵۳) علامہ شیخ عبد العلی ہروی تہرانی شیعہ حضرات کے نزدیک بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے ’مواعظ حسنہ‘ نامی کتاب تالیف فرمائی تھی۔ کتاب کے ٹائٹل پر ان کے یہ القاب لکھے گئے ہیں۔ ’’زبدۃ العارفین، قدوۃ السالکین، عمدۃ المتکلمین و فخر المتالہین، عالم علوم ربّانی، کاشف اسرار حقانی، وحید العصر، فریدِ دہر، سرکار علامہ الشیخ عبد العلی الہروی الطہرانی۔‘‘ یہ بزرگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی کے متعلق کتاب مذکور میں لکھتے ہیں۔ ’’پس معلوم ہوا کہ موت ان کے تابع ہے، بلکہ روز قیامت نفح صور انہی کے حکم سے ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المؤمنین ایک معمولی کرتا پہن کر لڑائیوں میں شریک ہوتے تھے اور لڑتے تھے۔ ایک مرتبہ اصحاب نے عرض کیا۔ تو فرمایا میں وہ ہوں جو موت کو بھی مارنے والا ہے۔ مجھے کیا خوف ہے اور قیامت میرے حکم سے برپا ہو گی۔‘‘ انا لساعة، انا الموت المميت ومخرج الكربات عن وجه خير البريات یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں خود قیامت ہوں اور موت کو مارنے والا ہوں۔ اور پیغمبر خدا سے رنج اور بلا دور کرنے والا ہوں (مواعظ حسنہ ص ۱۳۰) قال امیر المومنین عليه الصلوٰة والسلام اني خمرت طنية آدم بيدي اربعين صباحا۔ یعنی فرمایا ’امیر المؤمنین نے کہ میں نے خمیر کیا آدم کی مٹی کو اپنے ہاتھوں سے چالیس روز تک۔‘ (ص ۲۲۸) ’علی ساقی کوثر ہے، قیامت میں دنیا میں مرّبی، و حیات کو تقسیم کرتا ہے۔‘ (مواعظ حسنہ ص ۲۷۵) ایک شیعہ شاعر نے اپنے ’دیوان وفائی‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ’قدیم اور درجہ میں خدا سے کچم کم‘ کہا ہے۔ علی کہ در قدیمش نہ ریب ہست نے شکے علی کہ از خدا کی تبا شد جز اند کے (دیوان وفائی) جناب حبیب اللہ فارسی شیعہ ’گلستان حکیم قا آنی‘ میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جان اور جہاں آفریں اور انسانی لباس میں خدا ہیں۔ علی بندۂ خاص جان آفریں ولے در حقیقت جہاں آفریں آگے کہا کہ: گو وہ جہانِ آفرین کا بندہ ہے۔ مگر اصل میں جہاں آفریں وہی ہے۔