کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 25
﴿یٰٓاَیَّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُوْل وَاُوْلِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهِ اِلَي اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ﴾ (پ۵. النساء. ع۸) مسلمانوں! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولوں کا اتباع کرو اور اپنے حکمرانوں کا (کہا مانا کرو) اگر کسی چیز میں تم باہم جھگڑ پڑو تو (قطع نزاع کے لئے) اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔ اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ الف۔ اللہ اور رسول کی براہِ راست اطاعت کا حکم ہے۔ ب۔ حکمرانوں (اولیٰ الامر) کی اطاعت کو بالتبع رکھا ہے۔ اس لئے یہاں ’اطیعوا‘ اولی الامر نہیں کہا گیا بلکہ تنا اولی الامر بولا گیا ہے تاکہ یہ ذہن نشین ہو جائے کہ خلیفہ کی اطاعت مشروط ہے۔ ج۔ منکم (اپنے میں سے) کہہ کر یہ بتا دیا ہے کہ وہ بھی انسان ہی ہو گا۔ د۔ نزاع کی اجازت دے کر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ مامور من اللہ یا معصوم عن الخطاء نہیں ہوتے، اس لئے ان کی اطاعت غیر مشروط نہیں ہوتی۔ ھ۔ قاطع نزاع اور درجۂ استناد صرف اللہ اور اس کے رسول پاک کا خاصہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک، فرد یا جمیعیت خلیفہ ہو یا کوئی اور کارکن خدا کے ہاں جواب وہ ہے، وہ کسی کے ہاں جواب وہ نہیں ہیں۔ ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَھُمْ يُسْئَلُوْنَ ﴾ (پ۱۷. انبياء. ع۲) یعنی خدا کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ وہ سارے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ اس لئے ہمارے نزدیک ’خلیفہ اور امام کے معصوم‘ ہونے کا نظریہ صحیح نہیں ہے۔ ایک تو یہ نظریہ آیت کے خلاف ہے، جیسا کہ اوپر گزرا ہے، اس کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد بھی یہی ہے۔ فانی لست فی نفسه بفوق ان اخطي ولا اٰمن ذلك من فعل الا ان يكفي اللّٰه في نفسه وھو املك مني (نھج البلاغه ص ۱۷۴) میں اپنے نفس کو خطا کرنے سے بالا نہیں پاتا اور نہ اپنے فعل میں ماموں ہوں، سوائے اس کے کہ اللہ مجھے میرے نفس سے بچائے اور وہ مجھ سے زیادہ قادر اور مالک ہے۔ خارجیوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کرتے ہیں: ھولاء يقولون لا امرة وانه لابد للناس من امير براو فاجر (نہج البلاغہ، شرح میسم مطبوعہ طہران) وہ (خارجی) کہتے ہیں کہ حکومت نہ ہو حالانکہ وہ لوگوں کے لئے ضروری ہے، کوئی امیر نیک ہو یا بد۔‘‘ معلوم ہوا، خلیفہ کے لئے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ خوارج گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر تصور کرتے ہیں۔ اور وہ خلافت کے سلسلے میں شیعوں سے بھی سخت عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کو ’’بر اور فاجر‘‘ کا بالخصوص ذکر کرنا پڑا ہے۔