کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 24
اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایااور تم میں سے ایک کے رتبے دوسرے پر بلند کیے۔ سورہ یونس میں فرمایا: ﴿ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِھِمْ ﴾ (پ۱۱. یونس ع ۲) پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین پر خلیفہ (نائب) بنایا۔ امام ابن کثیر اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَه کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس سے مراد مختلف اوقات میں باری باری اقوام عالم کا آنا ہے۔ صرف حضرت آدم مراد نہیں کیونکہ سفکِ دماء ان کی طرف منسوب ہے۔ اس لئے اس سے حضرت آدم مراد نہیں ہو سکتے۔ (انی جاعل في الارض خليفه) اي قوما يخلف بعضھم بعضًا قرنا بعد قرن وجيلا بعد جيل.... وليس المراد ھھنا بالخليفة اٰدم عليه السلام فقط ..... والظاھرانه لم يرد اٰدم علينا اذ لو كان ذلك لما حسن قول الملئكة (اتجعل فيھا من يفسد فيھا ويسفك الدماء) فانھم ارادوا ان من ھذ) الجنس من يقعل ذلك (تفسير ابن كثير) امام ابن کثیر کا قول قابل قبول نہ بھی ہو تب بھی مندرجہ بالا آیات اسی مضمون میں بالکل واضح ہیں کہ اس خلافت سے مراد بلا استشہاء ’نسل انسانی‘ کی خلافت ہے جن لوگوں نے ان آیات کے الفاظ ’جاعل یا یجعل‘ سے امامت اور سیاسی پیشوائی مراد لی ہے۔ انہوں نے شاید قرآن حکیم کے سیاق و سباق پر توجہ نہیں دی۔ خلافت ابوت اس سے مراد آبائی وراثت ہے اور بس۔ یہ دونوں خلافتیں وہ ہیں، جن کا تعلق ہمارے موضوع سے نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کا تعلق پوری نسل انسانی سے ہے۔ جن میں خدا کی زمین پر ان کو قدرت تصرت حاصل ہے۔ اور اس سلسلے میں وہ ابتداءً اور وراثةً یکے بعد دیگرے نیابت اور خلافت پر متمکن چلے آرہے ہیں۔ خلافت رسالت اس سے مراد امامت انبیاء ہے جو حق تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ اور تنقید اور اقامتِ دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ﴿یٰادَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِيْ الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ﴾ (پ۲۳. ص. ع۲) اے داؤد! ہم نے آپ کو زمیں پر خلیفہ بنایا ہے۔ سو لوگوں کے مابین حق کے مطابق فیصلہ (کیا) کریں۔ انبیاء کا تعلق اسی خلافت سے ہے۔ رب بہ راہِ راست ان کی تقرری فرماتا ہے اور ان کی حفاظت خود کرتا ہے اس لئے وہ معصوم رہتے ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے ارشادات سے انحراف معصیت اور کافری تصور کیا جاتا ہے۔ خلافتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی اللہ کے رسول کے جانشین، خلیفہ اور اولو الامر کہلاتے ہیں۔ ان کا کام ’قرآن اور حامل قرآن‘ کا اتباع ان کے احکام کی تبلیغ اور تنفیذ ہوتا ہے۔ لیکن یہ معصوم نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ مبعوث ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی تقرری رب کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اس لئے ان سے اختلاف اور نزاع کیا جا سکتا ہے۔