کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 23
مشکل ہو گا۔ اگر بحث موضوعِ حق کیلئے ہے تو سنجیدہ گفتگو کیجئے! اگر صرف چکر چلانا ہے تو آپ کو مبارک، ہم اس میدان کے شاہ سوار نہیں ہیں۔ مجوزہ عنوان یہ ہیں۔
(۱) خلافت کی حقیقت (۲) شیعوں کے علی
(۳) شیعوں کے اربعہ ائمۂ معصومین (۴) شیعوں کا قرآن و حدیث
(۵) شیعوں کی اخلاقی اور سماجی اقدار
خلافت کی حقیقت خلافت کے لغوی معنی نیابت اور جانشینی کے ہیں۔ اصلاحاً اس کے متعدد معنے اور کئی ایک شکلیں ہیں۔
خلافت نسلِ انسانی حق تعالیٰ کی عطا کردہ قوت اور اس کی حرارت سے منجملہ باختیار اور مجاز ہونے کی بناء پر کائناتِ ارضی پر انسان جو تصرف یا حکومت کرتا ہے۔ اس کو ’خلافت نسلِ انسانی‘ کہہ سکتے ہیں۔ بعض علماء نے اس کا نام ’خلافتِ قدرت‘ رکھا ہے۔
﴿اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلَیْفَه ﴾
ہم زمین میں ایک خلیفہ بنانے والے ہیں۔
میں اسی خلافت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں مومن اور کافر، نیک اور بد سبھی انسان آجاتے ہیں۔ اور سبھی خلیفہ کہلاتے ہیں۔ اس سے حضرت آدم علیہ السلام کی امامت مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں فساد اور خوں ریزی کو انکی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ ایک نبی کی طرف اس کا انتساب جائز نہیں ہے۔ اس لئے یہی کہنا پڑے گا کہ اس سے نوعی نیابت مراد ہے۔ یعنی پوری نسل انسانی خلیفہ ہے۔ یہ جعل تکوینی ہے تشریعی نہیں ہے۔
﴿ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ فِي الْاَرْضِ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُه ﴾ (پ۲۲. فاطر. ع۵)
وہی ایسا ہے جس نے تمہیں زمیں میں خلیفہ بنایا، سو جو کوئی کفر کرے گا۔ اسی پر پڑے گا۔
﴿وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ﴾ (پ۲۰۔ النحل ع ۵)
(یا وہ جو) تم کو زمین میں خلیفہ (صاحب تصرف) بناتا ہے۔
﴿وَاذْکُرُوْا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآء مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ﴾ (پ۸. الاعراف. ع۹)
(حضرت ہود نے کہا اے بھائیو!) وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کے بعد (وارث) بنایا۔
ان تمام آیات میں نسل انسانی کی نیابت اور خلافت مراد ہے کیونکہ جن سے انبیاء خطاب فرما رہے ہیں۔ وہ عموماً کافر ہیں۔ مومن کم ہیں۔ اسی طرح طرح اس آیت کا حال ہے۔
﴿وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضُكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ﴾ (پ۸. الانعام. ع۲۰)