کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 22
فاجابني ثم جاءه رجل فسئاله عنھا فاجابه بخلاف ما اجابني ثم جاء اٰخر فاجابه بخلاف ما اجابني واجاب صاحبي فلما خرج الرجلان قلت يا ابن رسول اللّٰه رجلات من اھل العراق من شيعتكم قد ما يسئلان فاجبت كل واحد منھم بغير ما اجبت به صاحبه فقال يا زرارة ان ھذا خير لنا وابقي لنا (اصول كافي) رجال کشی میں محمد بن قیس کا ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ میں نے امام باقر سے ایک مسئلہ پوچھا تو مجھے بتا دیا اگلے سال پھر وہی پوچھا تو اور طرح بتایا، میں نے اس اختلاف کی وجہ پوچھی تو فرمایا، تقیہ کیا ہے۔ (رجال کشی) فرمائیے! ان کی کس بات پر اعتماد کیا جائے۔ جہاں ان کے اکابر کا یہ عالم ہے وہاں ان کے اصاغر کا کیا حال ہو گا؟ خود ہی سوچ لیجئے! یہ یاد رہے کہ حضرت امام باقر کے سلسلے کی یہ باتیں بقول شیعہ کے ہم نے لکھی ہیں ورنہ ہمارا ایمان ہے کہ شیعوں کا کوئی امام باقر ایسا ہو تو ہو لیکن ہمارے امام باقر ان تہمتوں اور بزدلانہ حرکات سے بالکل مبّرہ تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ بہر حال گویہ صورت حال کافی پریشان کن ہے تاہم ہمارے بس میں صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ جو کچھ بھی بتائیں، اسی کو سامنے رکھ کر ان سے بات کی جائے۔ گو یہ کتنے ہی بے اعتبارے کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اس کے سوا اور ہمارے لئے چارہ کار نہیں ہے۔ یقین کیجئے! جب ہم ان دوستوں کے مسلکی حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے۔ کہ یہ لوگ واقعی کسی اسلام دشمن شاطر کے فریب میں آگئے ہیں۔ ورنہ غور کیجئے! باتوں میں جعل سازی، تبرّا اور تقیہ بازی، اور صلحاء امت کی پاک سیرتوں کو مسخ کرنے کی مساعی، قرآن کے خلاف بدگمانی، اور دین نبی میں کتربیونت بھی کچھ ایسے کام ہو سکتے ہیں کہ کوئی ان کو کار ثواب تصور کرے۔؟ ہم نے اپنے پہلے مضمون میں جن حقائق کا ذِکر کیا تھا وہ ابھی معاصر محترم پر ہمارا قرض ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی روائتی ہیرا پھیری سے تو کام لیا ہے، موضوعِ بحث کی طرف توجہ مبذول نہیں فرمائی۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ہمارا مضمون مکرر ملاحظہ فرمائیں اور ان کا بھی۔ تاکہ آپ اندازہ فرما سکیں کہ کیا قصہ ہے۔ وہ پرچے محدث ماہِ محرم ۱۳۹۳ھ اور معارف اسلام شیعہ جون جولائی ۱۹۷۳ء تھے۔ اب ہم بحث کو سمیٹنے کے لئے چند مخصوص ایسے عنوانوں کا آغاز کرتے ہیں کہ اگر ایمان اور انصاف سے تبادلہ خیال کی کوشش کی جائے تو بات آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک معاصر موصوف کے سارے مباحث مندرجہ ذیل عنوانوں کے تحت آجاتے ہیں۔ ان سے ہم درخواست کریں گے کہ اگر دیانتداری اور خوفِ خدا کا کچھ پاس ہو تو خلط مبحث سے پرہیز کریں۔ اور صرف موضوع سے متعلق بات کریںِ ورنہ ہم آپ کی کسی بات کے جواب دینے سے معذور ہوں گے، جس طرح آپ پہلے اِدھر اُدر کی مارتے ہے ہیں، مارتے رہیے۔ ہمارے لئے آپ سے آوارہ بحث کے لئے اپنا وقت ضائع کرنا