کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 21
عزیز زبیدی صاحب (وار برٹن)
فرضی خلیفۂ بلا فصل اور وصی رسول اللہ کے ایک دلچسپ وکیل
قسط (۲)
ہمارے معاصرِ محترم جناب غیاث الدین صاحب نے ’بحث‘ کا جو انداز اختیار کیا ہے وہ ’خلطِ مبحث‘‘ کی ایک دلچسپ مثال ہے، اگر یہ راہ اختیار کر لی جائے تو شاید ہی کوئی بحث ختم ہو۔
معاصر موصوف سے گفتگو اس لئے بھی بدمزہ رہتی ہے کہ ان کی بات میں علم کم مگر جذبات میں تصنع اور خانہ ساز مفروضات زیادہ ہوتے ہیں اور اس باب میں یہ طبقہ اسی قدر تہی دامن ہے کہ اگر کبھی کسی علمی مبحث میں قدم رکھتا بھی ہے تو علم و تحقیقی کی پسلی پھڑک اُٹھتی ہے، مثال کے طور پر اسی مبحث کے دوران لکھتے ہیں کہ:
’’قرآن و احادیث صحیحہ کی رو سے آل جزو محمد مصطفیٰ ہے، تمام مذاہب اسلامیہ کی رو سے درود بروئے قرآن و تفسیر رسول محمد و آل محمد ہی پر بھیجنے کا حکم ہے اور بھیجا جاتا ہے۔ اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں لیا جا سکتا کہ آل محمد اجزائے محمد ہیں۔ اسی لئے قرآن حکیم میں آیہ درود میں ’یصلون علی النبی‘ آیا ہے۔ ’’یصلون علی نبی‘‘نہیں آیا۔ یعنی ال (الف لام) جنسی آیا ہے، یعنی نبی اور اس کے ہم جنس پر درود ہے۔‘‘ (معارف اسلام جون ۱۹۷۳، ص ۱۴)
الف لام جنسی کی اس تشریح پر شارح کافیہ علّامہ رضی (شیعہ) اور جزو کل کے اس جدید تصور پر فلسفہ و منطق کے امام بو علی سینا، فارابی اور کندی جیسے افاضل ہی ان کو داد دے سکتے ہیں ہماشما کی کیا مجال۔ بس سارے مضمون میں کچھ اسی قسم کے ان کے علمی شاہکار اور نمونوں کی بھرمار ہے جہان کیفیت یہ ہو، وہاں ان سے گفتگو کوئی کیا کرے اور کیسے کرے؟ اس پر مستزادیہ کہ تقیہ باز لوگ ہیں۔ اس لئے یہ کتنا بھی لکھیں ایک قاری اوّل تا آخر اندھیرے میں ہی رہتا ہے کہ موصوف نے جو لکھا ہے، واقعی یہ ان کے دل کی آواز ہے۔ یا کوئی چکر چلا کر تقیہ بازی کا شوق فرما رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ان کے امام کیا کرتے تھے۔ زرارۃ بن اعین شیعوں کے ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔ وہ فرماتے ہیں، میں نے امام باقر سے ایک مسئلہ پوچھا تو آپ نے مجھے بتا دیا، پھر وہی مسئلہ آپ سے ایک اور شخص نے پوچھا تو اس کو دوسری طرح جواب دیا، تیسرے نے آکر پوچھا تو کوئی اور جواب دیا۔ ان کے جانے کے بعد میں نے پوچھا یہ کیا قصہ ہے؟ فرمایا تمہارے اور ہمارے لئے یہی بہتر ہے۔
عن زرارۃ بن اعین عن ابی جعفر علیه السلام قال سالته عن مسئالة