کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 15
کفر کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ کسی طرح ان کے کام و ذہن کے چسکے پورے ہو سکیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مطلب کی بات ہو تو دین دار بن جاتے ہیں، ورنہ اپنے کو گنہگار کہہ کر کنارہ کر جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہاں بھی بات ’دین‘ کی نہ رہی، نفس طاغوت کی رہی۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کا بھی حشر مسلمانوں میں نہ ہو۔ ہمارے نزدیک اس مرض میں اہلِ سیاست زیادہ مبتلا ہیں بلکہ حد درجہ خدا سے بے خوف ہو کر ’’کلمۂ اسلام‘‘ کا کاروبار کرتے ہیں۔
خدا نے دو مثالیں بیان کی ہیں کہتے ہیں، پہلی خالص منافقین کی ہے اور دوسری نیم منافقوں کی، لیکن ہمارے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ دونوں خالص منافقین کی ہیں، کیونکہ ان میں جو بھی بات ہے، اس کا ہر جزئیہ کفر کو مستلزم ہے۔ پہلی مثال میں یہ ہے کہ کچھ چل کر ٹھٹک جاتے ہیں کہ اب کیا کریں؟ انہیں کچھ نہیں سوجھتا، دوسری میں یہ ہے کہ: اگر بعض اغراض سیئہ کے لئے ’آمنا‘ کہتے ہیں تو ان کو اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد جان و مال اور مفاد کی یہ یہ قربانیاں بھی دینا پڑیں گی۔ اس لئے گھبرا جاتے ہیں اور ان سے بچنے کے لئے تدبیریں کرتے ہیں، پھر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ بس اب ہم بچ گئے۔
عہد نبوی میں اہل نفاق کی مزید کار گزاریاں
اہل نفاق کیا تھے اور کیا نہیں تھے؟ اس کا کچھ حصہ اوپر کی سطور میں بیان کیا گیا ہے اور مزید درج ذیل ہے۔ گویہ ساری تفصیل دور نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک دور کے اہلِ نفاق سے متعلق ہے، تاہم بعد کے اہلِ نفاق کے سمجھنے کے لئے بھی اس سے مدد مل سکتی ہے۔ بندۂ عاصی کی یہ کوشش رہتی ہے کہ ایک مضمون کے سلسلے کی ساری تفصیل ایک جگہ جمع ہوتی جائے، خدا جانے ’’التفسیر والتعبیر‘‘ کے اتمام کی نوبت آتی ہے یا نہ، تاہم جتنے مباحث آتے جائیں مناسب حد تک مکمل ہوتے جائیں تو بہتر رہے گا، غرض یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدمتِ قرآن ہو جائے جو قیامت میں میرے لئے ذریعۂ نجات بنے۔
بے یقینی کا مرض یہ لوگ سدا تذبذب کا شکار رہتے تھے، اس لئے ادھر بھی اور ادھر بھی، سبھی سے ’صاحب سلام‘ کے قائل مگر بغرض استحصال۔
﴿مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَا اِلٰی ھُٰؤلَاءِ وَلَا اِلٰی ھُٰؤلَآءِ ﴾
درمیان میں لٹکے ہوئے ہیں، پورے ان کی طرف ہیں نہ ان کی طرف
﴿اَلَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْج فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ قَالُوْا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (سورت نساء: ع۲۰)