کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 14
بِالْكٰفِرِيْنَ٭ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ كُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ مَشَوْا فِيْهِ وَاِذَا اَظْلَمَ عَلَيْھِمْ قَامُوْا وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْر﴾
کہیں نہیں نکل سکتے) قریب ہے کہ بجلی ان کی نگاہوں کو اچک لے جائے جب ان کے آگے بجلی چمکی تو اس میں (کچھ) چلے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ چاہے تو (یوں بھی) ان کے سننے اور دیکھنے کی قوتیں (ان سے) سلب کر لے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
____________________________________
چاہئے جو ان کے صرف مفاد عاجلہ کی ضمانت مہیا کرے اور وہ بھی اس قدر ’بے آمیز‘ ہو کہ، جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات کا کھٹکا تک بھی باقی نہ رہے۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کانوں میں اس کی بھنک بھی نہ پڑے تاکہ رنگ میں بھنگ نہ پڑے، عیش کی کوئی گھڑی بھی منغص نہ ہانے پائے، اور پرلطف زندگی کی دوڑ میں کہیں بھی کوئی بریک نہ لگنے پائے۔ اگر کہیں ایثار کامرحلہ آجاتا ہے تو کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس سے بچ ہی جائیں، خدا کہتا ہے کہ بچاؤ کے لئے بھی جو تدبیریں اختیار کرتے ہیں وہ بھی خدا سے بے نیاز ہو کر کرتے ہیں، حالانکہ اگر اللہ چاہے تو وہ ان کے سوچنے سمجھنے کے وسائل (کان اور آنکھیں) ہی مسمار کر دے، آخر ان کو سوچنا چاہئے کہ خدا کیا نہیں کر سکتا۔
بارش سے مراد ’وحی الٰہی‘ ہے جس میں پیامِ بشارت بھی ہے اور ذمہ داریوں کے چونکا دینے والے احکام بھی، بشارتوں پر نظر کرتے ہیں تو دوڑ کر شامل ہو جاتے ہیں، لیکن جب مشکلات کا تصور کرتے ہیں تو چھپتے ہیں۔ بچنے کی تدبیریں کرتے ہیں اور جب محسوس کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی جان نہیں چھوٹے گی تو ٹھٹک کر رک جاتے ہیں۔
اس میں کمزور ایمان والوں کی بات نہیں بیان کی گئی جیسا کہ بہت سے بزرگوں نے لکھا ہے، بلکہ ایسے منکرینِ حق کا ذکر ہے جو ’مطلب پرستی‘ میں اتنے دور نکل گئے ہیں کہ سطحی مقاصد کے حصول کے لئے اگر ان کو اپنی کافری میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ بھی کر گزرتے ہیں۔ یعنی کفر میں حد درجہ مخلص ہوتے ہیں۔ بہرحال کافروں میں کم از کم یہ خوبی تو ہوتی ہے کہ اپنے شخصی مفاد کے لئے کفر میں لچک پیدا کرنے کو بھی اپنے خصوصی مفہوم میں ’کفر‘ ہی تصور کرتے ہیں، مگر یہ منافق ایسے بے ضمیر اور بزدل کافر ہیں کہ معمولی سے معمولی فائدہ کے لئے بھی اپنے