کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 13
اَوْ كَصَيِّبٍ۱۲؎ مِّنَ السَّمَآءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٍ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھَمْ فِيْ اٰذَانِھِمْ مِّنَ الصَّوَاعقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّٰهُ مُحِيْطٌ
یا جیسے آسمانی بارش کہ اس میں (کئی طرح کے) اندھیرے ہیں اور گرج اور بجلی، موت کے ڈر سے مارے کڑک کے انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے لیتے ہیں۔ اور اللہ منکروں کو گھیرے ہوئے ہے (کہ اس کی پکڑ سے
_______________________________________________
آج تقریباً تقریباً ساری دنیا کا یہی حال ہے، اسلام کا نام لیتے ہیں کہ مسلمانوں کا اعتماد حاصل رہے اور وہ ان کے اقتدار کی پنجابی آسانی کے ساتھ اپنے گلے میں ڈال لیں۔ لیکن جب قوم یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ جس اسلام کے آپ گن گا رہے ہیں اگر واقعی آپ کے نزدیک وہ اتنی عظیم دولت ہے تو پھر عملاً اسے پورا پورا قبول کیوں نہیں کرتے؟ تو ’’گُم سُم‘‘ ہو کر رہ جاتے ہیں یا کہنے والے کو کرسی کا بھوکا کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ تاہم پھر ہزار کوشش کے باوجود قوم سے چپ نہیں سکتے اور سیاسئین سوء کی یہ سیاسی منافقت بالآخر منظرِ عام پر آکر رہتی ہے۔
۱۱؎ صُمٌّ (بہرے) یعنی نہ حق سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں، جہاں صورتِ حال یہ ہو، وہاں راہ راست کی طرف ان کے پلٹ آنے کی کوئی توقع کرے بھی تو کیسے؟ یعنی مفادِ عاجلہ (یعنی نقد اور حاضر فائدے) کے سلسلےمیں وہ اس قدر ’ذکی الحس‘‘ (حساس) ہو گئے ہیں کہ ان کے سوا ان کو اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے، بالکل ایک کاروباری خبطی کی طرح کہ: بات کوئی ہو، اسے مال و منال کی بات ہی سنائی دے گی۔ محل و موقع کوئی ہو وہ بہرحال چیروں کے بھاؤ کی بات کرے گا، سامنے کچھ ہو رہا ہو، اسے بہرحال ’’غلّے کی ڈھیری‘‘ ہی نظر آئے گی۔ یہی حال ان کا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے جو بھی سن پاتے ہیں، اس پر وہ یہی سوچنے لگ جاتے ہیں کہ اب اس کی آڑ میں کیا شکار کھیلا جا سکتا ہے، جو بھی دیکھ پاتے ہیں، اسے وہ ’خوانِ نعیما‘ ہی دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ بولنا بھی پڑ جائے تو بھی سودے کی ہی بات کریں گے کہ: آخر اس سے کیا وصول ہو گا۔اب آپ غور فرمائیں، جہاں کیفیت یہ ہو وہاں ‘بہروں گونگوں اور اندھوں‘ کی دنیا آباد نہ ہو گی تو اور کیا ہو گا۔
’یعنی اللہ کے نبی نے دینِ اسلام روشن کیا اور خلق نے اس میں راہ پائی اور منافق اس وقت اندھے ہو گئے، آنکھ کی روشنی نہ ہو تو مشعل کیا کام آوے، کا شکے نرا اندھا ہو تو کسی کو پکارے یا کسی کی بات سنے، بہرا بھی ہو اور گونگا بھی، وہ کیونکر راہ پر آوے، منافقوں کو یہ عقل کی آنکھ ہے نہ آپ سے پہچانیں، نہ مرشد کی طرف رجوع ہے کہ وہ ہاتھ پکڑے نہ حق کی بات کو کان رکھتے ہیں۔ ایسے شخص سے توقع نہیں کہ پھر پاوے۔ (موضح)
۱۲؎ اس مثال میں بھی مطلب پرستوں کی ذہنیت بیان کی گئی ہے یعنی وہ چاہتے ہیں کہ انہیں صرف ایسا اسلام