کتاب: محدث شمارہ 35 - صفحہ 12
عزیز زبیدی واربرٹن۔ قسط (۷)
سورۂ بقرہ
مَثَلُھُمْ۱۰؎ كَمَثَلِ الَّذِيْ اسْتَوْ قَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَاءَتْ مَا حَوْلَه ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِھِمْ وَتَرَكَھُمْ فِيْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصَرُوْنَ٭ صُمٌّ۱۱؎ بُكْمٌ عُمْيٌ فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ﴾
ان کی کہاوت (بھی) اس شخص کی سی کہاوت ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس کے آس پاس کی چیزیں جگمگا اُٹھیں تو اللہ نے ان کا نور سلب کر کے ان کو اندھیرے میں چھوڑ دیا کہ اب ان کو کچھ نہیں سوجھتا۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں کہ وہ پھر (راہِ راست پر) نہیں آسکتے۔
_____________________________________
۱۰؎ مَثَلَھُمْ (ان کی کہاوت، مثال) یہاں پر ان منافقوں کی کیفیت اور پیچ و تاب کا حال ایک مثال کے ذریعے واضح فرمایا گیا ہے۔
زبانی کلامی کلمہ پڑھ کر مسلمان برادری میں شامل ہو گئے اور مزے مزے رہنے لگے، یہاں تک کہ وحی الٰہی نے آکر ان کی قلعی کھولی، کہ گو یہ لوگ مسلمانوں میں گھل مل گئے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے نہیں ہیں بلکہ مارِ آستین ہیں، چنانچہ اس کا انکشاف ہوتے ہی ان کے سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دین تو پہلے بھی نہیں تھا، اب دنیاوی مقاصد کا مستقبل بھی تاریک ہو گیا، بس ؎ خدا ہی ملانہ وصالِ صنم
بالکل یوں، جیسے آگ جلا کر روشن کی، جب ماحول جگمگا اُٹھا تو روشنی گل ہو گئی اور وہ پھر اس اندھیرے کی لپیٹ میں آگئے جس سے وہ نکلے تھے یا نکلنا چاہتے تھے۔