کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 9
کی ترجیح پاکستان کی دیگر عدالتوں کے بعض سابقہ فیصلوں کی روشنی میں بھی ایک مسلمہ مسئلہ ہے جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے 1986ء میں زنا آرڈیننس کو آرمی ایکٹ پر فوقیت دینے کا فیصلہ کیا تھا او ریہ حکم دیا تھا کہ اس کے مجرم کا ٹرائل ’کورٹ آف مارشل‘ کی بجائے سیشن کورٹس [1]میں کیا جائے۔ایسے ہی 1985ء میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ قرار دیا تھا کہ حدود قوانین کو ’سندھ چلڈرن ایکٹ‘ پر فوقیت [2]حاصل ہوگی۔ 3. علاوہ ازیں عدالت نے اپنے فیصلہ (نکتہ نمبر117 کے شق 1 تا 4)میں امتناع دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ نمبر 25 اور امتناعِ منشیات ایکٹ1997ء کی دفعہ 48 اور 49 کو بھی آئین کی دفعہ 203 ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے خلافِ اسلام قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں دفعات میں قرار دیا گیا تھا کہ ان جرائم کی اپیل ہائی کورٹ میں داخل کرائی جائے ، جبکہ شرعی عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہ ’’قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی سزا قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا اُن سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کئے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت میں ہی کی جائے ۔‘‘ عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے جو اس سے قبل مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد 10 شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص /انسانی سمگلنگ 4. روزنامہ انصاف اور روزنامہ نواے وقت میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی خبر دیتے ہوئے لکھا گیا کہ ’’عدالت کے تین رکنی بنچ نے تحفظ حقوق نسواں ایکٹ 2006ء کی چار شقوں کو
[1] دیکھیں 1986ء PSC کا فیصلہ نمبر 1228 [2] دیکھیں پاکستان کریمنل لاء جرنل، فیصلہ نمبر1030