کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 79
اعتماد کے بغیرمستحکم اور قوی نہیں ہوگا۔پاکستان کا تحفظ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اہل ایمان ہی کریں گے، لیکن مسلمانوں میں باہمی اعتماد کا رشتہ ہی ختم ہوگیا تو ہمیں دشمن کے مقابل سیسہ پلائی دیوار کون بنائے گا؟آج ہماری نظریاتی کمزوری کا یہ عالم ہے اور ہمیں ایک دروغ گو کی باتوں پر اتنا یقین ہے یا اُس کا اتنا ڈر مسلط ہوگیا ہے کہ ہم اسامہ بن لادن کو شہید کہنے سے گھبراتے ہیں۔دنیا کے مسلمہ ظلم اور کفر کے ہاتھوں شہید ہونے والے کی سعادت میں کیا شبہ ہے کہ وہ شہید نہیں۔ اگر ہم حق کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہیں تو کم ازکم باطل کے تیروں کے رخ سے ہی ہمیں اہل حق کا پتہ چل جانا چاہئے۔
اُمتِ اسلامیہ دشمن کے حملوں اور سازشوں کے نرغے میں ہے، اور ہم روز وشب کی مصروفیتوں میں اُلجھے ہوئے، اس معرکہ خیر وشر سے لاتعلق بنے بیٹھے ہیں۔ اُمتِ اسلامیہ میں پایا جانے والا یہ تیسرا رویہ دراصل اسامہ بن لادن یا طالبان کو پیدا کرنے کا حقیقی سبب ہے ۔ جب ظلم موجود ہو او رظلم کا ہاتھ روکنے والے اس کی بجائے خود مغالطوں کا شکار ہوکر اپنی دنیا کمانے اور ظلم کو اپنے قریب پہنچ جانے کی مہلت دینے کے منتظر ہوں، تو تب ہی مجاہدین کمزوری محسوس کرکے کوئی انتہاپسندانہ اقدام کرنے پر مجبورہوتے ہیں۔ اور ان غیور مجاہدین کو ان کی کمزوری اور ان کی قوم کے ساتھ نہ دینے کے سبب ، جب ظالم اورکافر ہلاک کردیتا اور اسے ’دہشت گرد‘ قرار دے دیتا ہے تو یہ غافل مسلمان بھی اس کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے تئیں محفوظ خیال کرتے ہیں اور اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب اُن پر بھی ظلم کیا جائے گا اور جب یہ اکیلے جواب یا دفاع کریں گے تو اُنہیں بھی ’دہشت گرد‘ قرار دے کر باقی دنیا چین کی نیند سوجائے گی۔موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ مسلمانوں کا نظریاتی طورپر مغالطوں اور مغلوبیت کا شکار ہونا اور خوابِِ غفلت کی نیند سوجانا ہے۔ ہمیں اس حساس موقع پر اپنے مؤثر کردار کی جستجو کرنا چاہئے، جو آخر کار ملتوں کی اس جنگ میں ہمیں ذلت وہزیمت سے بچالے۔
اس کے لئے یہ لازمی نہیں کہ امریکی ظلم وستم کے بالمقابل لازماً بھڑ ہی جایا جائے، کیونکہ جہاد وقتال کے لئے موزوں اور مناسب حکمتِ عملی اختیار کرکے ہی مطلوبہ نتائج نکل سکتے ہیں، تاہم یہ ضروری ہے کہ ملت کو درپیش اس المیہ کی نوعیت کو پوری طرح ذہن نشین کرلیا جائے، اور اپنے ذمہ عائد ہونے والے فرض کو ادا کرنے کی جستجو میں صلاحیتیں کھپا دی جائیں۔ کم ازکم اتنا ضرور ہو کہ ہم دوست دشمن کو پہچان سکیں، اور اپنے اوپر ظلم اور جارحیت کرنے والی طاقتوں کو اپنا سمجھنے کے مغالطے میں مبتلا نہ ہوں۔یہ کسی قوم کے فکری زوال اور محکومی ومرعوبیت کی انتہا ہے!!
جب ہمارے عوام الناس اِن تلخ حقائق پر غور نہیں کرتے تو پھر یہی اپنے ووٹوں سے ایسے