کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 78
ہیں کہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جانا ضروری تھا۔ ان دونوں ممالک پر حملہ کی اصل وجہ ان کے اموال پر تسلط جمانا ہے جس کا شکار راسخ مسلمانوں کے بعد وہاں کے عامّۃ المسلمین بھی بنے ہیں۔
نامعلوم ایسا کیوں ہے اور ہم اپنے آپ کو طفل تسلیاں کیوں دیتے ہیں۔ جب امریکہ اور اس کے حواری تمام پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ الزام حقیقت نہیں کیونکہ ہم تو دہشت گرد نہیں ۔ تاہم جب امریکہ، طالبان یا القاعدہ کو دہشت گرد کہتا ہے تو اس کی زبانی اس جھوٹ پر ہم ایمان لے آتے ہیں کہ ہاں ہاں یہ بالکل دہشت گرد ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ تو دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں، اس لئے ان پر الزام لگتا ہے، لیکن عالمی دہشت گرد امریکہ کی نظر میں حقیقی دہشت گردی امریکی مفادات کی راہ میں رکاوٹ بننا ہے، اور اس لحاظ سے ہم سب امریکی مفادات کے بالمقابل ہیں۔ جس طرح اپنے بارے میں ہمیں یہ الزام لگتاہے اور ہم اپنے آپ کو مغالطہ دے کر مطمئن ہوبیٹھتے ہیں، تو یہی دراصل ہمیں آپس میں لڑانے کی سازش ہے۔ دراصل یہ کرشمہ ہے اس نظریاتی اور ابلاغی کشمکش کا کہ ایک جھوٹے نے ہمیں آپس میں بانٹ رکھا ہے۔ آج افواجِ پاکستان اس امریکی جھوٹ کو جان کر اندرونِ ملک مزید پیش قدمی نہیں کررہیں کیونکہ وہ اس الزام کے کھوکھلے پن اور امریکی چالبازی کو سمجھ چکی ہیں تو اس نظریاتی کشمکش کو بھی ہمیں سمجھنا اور ردّ کرنا ہوگا جس نے ہمیں نظریاتی طورپر تقسیم کردیا ہے۔
امریکہ کے مغالطے کھاتے کھاتے ہم مغالطوں کے ہی عادی ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں روس آیا تو ہم نے پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑی اور آخر کار اُس کومار بھگایا اور اب افغانستان میں امریکہ آیا اور اس نے ہمیں اتحادی کہہ کر مغالطہ دیا تو اس پر ہم یقین کر بیٹھے اور ’سب سے پہلے پاکستان ‘ کے مغالطہ آمیز نعرے اور اتحاد اتحاد میں پوری قوم کو ہلاکت اور نظریاتی موت کے سپرد کردیا۔
جب کہا جاتاہے کہ آئی ایس آئی پر تنقید نہ کروتو تمام صحافی اس کے پرجوش مبلغ بن جاتے ہیں کہ ہم اور ہماری فوج میں اگر دوری پیدا ہوگئی تو پھر ہماری لئے جان کون دے گا اور امریکہ آئی ایس آئی کو ہماری تنقید کے بعد تباہ کرکے رکھ دے گا۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن آئی ایس آئی کی ناکامی نہیں بلکہ سی آئی ڈی اور آئی بی جیسی ایجنسیوں کی بھی کوتاہی کا نتیجہ ہے ،اور آئی ایس آئی پر کڑی تنقید اس کو کھوکھلا کردے گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کی نظریاتی قوت اسلامی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔ اسلام پر سالہا سال تنقید ہوتی رہی، کبھی اسلام کو روشن خیال بنایا گیا اور کبھی مغرب نواز ، کبھی اہل دین کو دہشت گرد بتایا گیا اور مجاہدین کو وطن دشمن۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے نظریات کو کھوکھلا کردینے اور پاکستان کے دینی عنصر کو دشمن باور کرانے سے ہم کیا اپنے وطن اور ایمان کا دفاع مضبوط کرتے رہے۔ملت اسلامیہ ایک نظریاتی تشخص کا نام ہے، اور یہ نظریاتی تشخص ہمارے نظریاتی قائدین پر