کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 73
فروخت کیا اور یہاں کے حکمرانوں نے امریکہ کی سیاسی آشیر باد حاصل کرنے کےلئے عین حکومت کے مرکز میں دین کی معصوم طالبات کو خاک وخون میں نہلادیا۔اُنہوں نے قبائلیوں سے ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور اپنے ملک کے مظلوم باشندوں کو انصاف نہ دینے کی بجائے امریکہ کی نظر سے دیکھ کر اُن سے کھلم کھلا جنگ مول لی۔ وہ لوگ جو پاکستان کے بازوئے شمشیر زن اور دفاع کرنے والے تھے، ان کو ملک کا غدار بنانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ حکومت کے ذمہ داران نے امریکی زبان بولی اورپاکستان کے دفاع او رتحفظ سے بھی مجرمانہ تغافل برتا۔ آج نظریاتی کشمکش کے دس سال گزار لینے کے بعد ہمیں معلوم ہورہا ہے کہ اصل دشمن طالبان نہیں بلکہ امریکہ ہے جو کھلم کھلاغنڈہ گردی کرتا اور ہماری خودمختاری کو پامال کرتا ہے۔ آج بھی حکومت کے بس میں ہوتا تو اس کو طالبان کے کھاتے ڈال دیا جاتا جیسا کہ 2 مئی کو ہونے والے اُسامہ بن لادن کی شہادت کے واقعے کے چند ہی دنوں بعدشب ِقدر میں80پاکستانی نوجوانوں کو امریکی ایجنڈے پر شہید کرکے، پاکستان کی بھولی قوم کو اپنا اصل دشمن یعنی پاکستانی طالبان کو یاد کرانے اورباہم منتشر کرنے کی دوبارہ مذموم سعی کی گئی ہے۔پھر وزیر داخلہ نے مہران ایئربیس پر حملے کو بھی امریکہ کی بولی بول کر پاکستانی طالبان کے کھاتے ڈال دیا ہے لیکن منصفانہ تحقیق یہ ثابت کرے گی کہ پاکستان پر اس قدر حساس اور گہرا وار شیطانی اتحادِ ثلاثہ بالخصوص بھارت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔
اندرونِ ملک پائی جانے والے اس انتشار اور ظلم وستم کے خلاف تحریکِ طالبان کا جوابی ردعمل گوکہ ایک معنویت رکھتاہےاور متاثرہ انسان سے حکمت ودانائی کی توقع کرنا بھی فضول ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ان متاثرہ طالبان نے بعض مقامات پر جوابی کاروائیاں کی ہوں گی، لیکن گذشتہ تین برس کی اکثر وبیشتر کاروائیاں، طالبان کے پردے میں ان غیرملکی ایجنسیوں کی کارگزاری ہے جو وہ اپنے مقاصد کے لئے ملک بھر میں آئے روز کر رہی ہیں۔ طالبان کی چند ایک کاروائیوں کی گہرائی میں اُترا جائے تو درپردہ ان ایجنسیوں کی ملی بھگت، منصوبہ بندی اور طالبانی نوجوانوں کو ورغلانے کی مذموم کوششیں اس میں لازما ًشامل ہوں گی۔ کیونکہ اگر طالبان نے خالصتاً یہ حملے کئے ہوتے تو ان کا شکاراپنی قوم کےعوامی مقامات اورمساجد کی بجائے نیٹو کےٹینکر،امریکی اڈّے اورامریکی اہل کار ہوتے۔ ہماری حکومت کو مفادات کی بندربانٹ، اور امریکہ نوازی کے بعد اتنی فرصت نہیں کہ وہ افغانستان میں سرگرم درجنوں بھارتی قونصل خانوں اور امریکہ کے سیکڑوں ایجنٹوں کی چلت پھرت پر نظر رکھے۔ ہماری ایجنسیاں، پولیس اور قانون نافذکرنے والے دیگر ادارے ایوان ہائے سیاست کے مکینوں کی حفاظت ونگرانی اور محلاتی سازشوں میں ہی مگن رہتے ہیں اور اُنہوں نے دشمن کو کھل کھیلنے کی پوری اجازت دی ہوئی ہے۔
مذکورہ بالا دونوں رویے: تشدد اور تکفیر قومی اور بین الاقوامی سطح پر دراصل ظلم کے خلاف