کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 72
امریکی ظلم وستم اور مسلمانوں کے مفاد پرست حکمرانوں کے مقابل بعض مسلم معاشروں میں حالیہ سالوں میں یہ رویہ بھی پروان چڑھتا نظر آتا ہے کہ جب ان ممالک میں امریکہ یا حکومت کی کھلم کھلا جارحیت بڑھتی ہے تو بعض متاثر نوجوان اُس کے مقابلے کی ٹھان لیتے ہیں۔امریکیوں کے خلاف اِقدام کے شرعی جوازکے لئے تو اُنہیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی لیکن چونکہ ان کے خلاف یہ امریکی اقدام ان کے اپنے مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں ہوتا ہے، اس لئے وہ سامنے نظر آنے والے اِن ہاتھوں سے نبرد آزما ہوجاتے ہیں اور اس کے لئے بعض اوقات اُن کی تکفیر کا سہار الیتے ہیں۔
نظریۂ تکفیر جس کی رو سے پہلے امریکہ کی حمایت میں اُن پر ظلم ڈھانے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیا جاتا اور پھر ان کے خون کو حلال باور کیا جاتا ہے، یہ بھی مظلوم مسلمانوں کا جوابی ردعمل ہے اور اُسے بھی درست نہیں کہا جاسکتا۔پاکستان میں تحریکِ طالبان وغیرہ جہاں اپنے غم وغصہ کے لئے براہِ راست اپنے مقابل: افواجِ پاکستان اور ان کے مؤید عوام کو اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہاں اس سلسلے میں اُن کو نظریاتی تائید نظریۂ تکفیر سے ملتی ہے۔مسلم ممالک میں داخلی دہشت گردی کے جواز کے لئے متعارف ہونیوالا نظریۂ تکفیردراصل القاعدہ یا طالبان تحریکوں کی نظریاتی اساس ہے اور اس کا وجود بھی دراصل شدید جارحیت کا نتیجہ ہے یعنی یہ رویہ بھی ردعمل کا شاخسانہ ہے۔
یاد رہے کہ ہر ایسی دینی تحریک جسے کسی جارح کے براہِ راست مصائب اور آزمائشوں سے پالا نہ پڑا ہو اور اس کے پاس معاشرے میں مثبت کام کرنے کے ذرائع موجود ہوں، وہ تکفیرکے نظریے میں پناہ حاصل نہیں کرتی۔ بطور ِمثال پاکستان کی جماعتِ اسلامی یا جماعۃ الدعوۃ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اوّل الذکر واضح سیاسی اہداف اور نظریات رکھنے اور ثانی الذکر ایک معروف جہادی تنظیم سے تعلق ہونے کے باوجود ، چونکہ سیاسی سرگرمی یا فلاحی خدمات میں مشغول ہے اور اُنہیں ابھی تک الحمد للہ کھلی جارحیت کا شکار نہیں ہونا پڑا، اس لئے دونوں کے ہاں تکفیری نظریہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ جماعتیں جو حکومتوں کا نشانہ اور تختۂ مشق رہی ہیں مثلاً اخوان المسلمون سے نکلنے والی ’جماعت التکفیر والہجرۃ‘ یا القاعدہ اور پاکستانی طالبان وغیرہ تو یہ تکفیری نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔اس لئے تکفیر بھی تفجیر (بم دھماکوں) کی طرح ناراض گروہوں کا نظریاتی رد ّعمل ہی ہے۔ یہ رویے نہ صرف کم علمی سے جنم لیتے ہیں بلکہ کسی سنگین معاملے کو ظاہری نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔
یہاں تحریکِ طالبان پاکستان کے غلط موقف کے ساتھ حکومت ِپاکستان کا ظالمانہ کردار بیان کرنا بھی ضروری ہےجس نے نہ صرف اپنے حقیقی دشمن کو پہچاننے میں غلطی کی بلکہ اس کو ملک میں اس حد تک اندر آنے کا موقع دیا کہ آج وہ دشمن اندر بیٹھ کر ہم پر وار کررہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے اپنی رعایا کی حفاظت کے کردار سے مجرمانہ غفلت کی اور آئے روز ہونے والے ڈرون حملوں کے معصوم شکاروں کے خون سے مجرمانہ چشم پوشی کی۔ اس حکومت نے مجاہدین کو امریکہ کے ہاتھوں