کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 71
خیالات رکھنے والے لوگ ملت ِاسلامیہ میں 1990ء سے پہلے نہیں ملتے۔ جب سے امریکہ نے مسلم ممالک میں مداخلت کا آغاز کیا ہے، تب سے مسلم نوجوانوں کا مزاحمتی گروہ القاعدہ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ماضی بعید میں بھی مسلمانوں میں یہ جہادی گروہ ہر مسلم خطے میں استعمار کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں اور اُنہوں نے سامرا ج کے قدم روکنے کے لئے قربانیوں کی شاندار داستانیں رقم کیں جن میں برصغیر میں سید احمد شہید، شاہ اسمٰعیل شہید اور جماعت المجاہدین وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔تاہم1890ء تا1990ء کی پوری صدی میں اس نوعیت[1] کی جہادی تنظیمیں اس لئے زیادہ نہیں پائی جاتیں کہ وہ دور اہل کفر کی اسلام کے خلاف کھلم کھلا جارحیت کا نہیں بلکہ ایک طرف مغربی قوتیں آپس میں برسرپیکار تھیں تو دوسری طرف مسلمان ممالک ثقافتی یلغار کا سامنا کررہے تھے۔ پاکستان کی تحریکِ طالبان بھی ایک طرف سرحدی علاقہ جات میں ہونے والی امریکی جارحیت اور ظلم وبربریت کے خاتمےکے لئے وجود میں آئی تو دوسری طرف 2007ء میں لال مسجد کے سانحے کے بعد اس کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ طالبان کی مختلف قیادتوں کو دیکھا جائے یا سوات میں جاری مزاحمتی تحریک کو، ہر جگہ قیادت اُن لوگوں نے کی جن کے انتہائی قریبی عزیز ظالم کی گولی سے بے موت مارے گئے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی طالبان میں کارفرما عناصر ہوں یا قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین، ہمیشہ سے پاکستان میں موجود رہنے کے بعد کسی نے پرتشدد کاروائیوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ جب اُن پر تشدد کیا گیا تو اُنہوں نے جوابی تشدد کو اختیار کیا۔اُمتِ اسلامیہ یا پاکستان کا اصل مسئلہ پرتشدد عناصر نہیں بلکہ اُن پر ہونے والی پہلی جارحیتیں ہیں اور اس سے جو براہِ راست متاثر ہوتے یا زیادہ حساس اور باغیرت ہوتے ہیں، وہ اُن کے اپنے تئیں تدارک کرنے یا اپنے غم وغصہ کو غلط کرنے کے لئے میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔ مسلم ممالک میں پائی جانے والی حالیہ دہشت گردی کو دراصل امریکہ غذا فراہم کرتا ہے۔ امریکی عہدیداران آے روز کہتے ہیں کہ’’پاکستان اس وقت دنیا کا خطرناک ترین خطہ ہے جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔‘‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دہشت گردی امریکہ کے اس خطے میں آنے کے بعد ہی شروع ہوئی اور امریکی ظلم کے خاتمے کے کچھ عرصے بعد ازخود ختم ہوجائے گی۔ افسوس اس حقیقت کو سمجھنے میں اہل پاکستان کے کئی سال صرف ہوئے اور اس میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ان دونوں سے بڑھ کر اہل پاکستان کے نظریات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
[1] 60 کی دہائی کی عرب اسرائیل جنگ ہو یا80 کی دہائی کی روس افغان جنگ، ان میں مسلمانوں کا جہادی جذبہ پوری قوم کی مشترکہ مدافعت اورمزاحمت میں جذب ہوگیا، اور ان کے نتیجے میں نجی جہادی تحریکیں قائم نہ ہوئیں۔