کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 70
جبر وتسلط کے خلا ف کسی بھی اسلام پسند کے دل میں پائی جاتی ہے، اور یہ القاعدہ کسی منصف مزاج غیرمسلم کے دل میں بھی پنپ سکتی ہے۔ اس تعبیر کے لحاظ سے القاعدہ واقعتاً ایک عظیم الشان تنظیم ہے، جوامریکہ کے ظلم وستم کے خلا ف ہر شخص کے دل میں انتقام کی آگ کی طرح بھڑک رہی ہے۔ لیکن امریکہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس القاعدہ نے ابھی تک کوئی تنظیمی ڈھانچہ اور منظم حکمت ِعملی اختیار نہیں کی۔ اُسامہ بن لادن اور اُن کے ہم نواؤں سے ہمارا شکوہ یہ ہے کہ اُنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود امریکہ کو للکارا کیوں؟ اگر اُنہوں نے چند ایک حملے بھی کئے تو اس کے نتیجے میں آخرکار جوابی طور پرمسلمانوں کاہی زیادہ نقصان ہوا کیونکہ وہ ظالم کومظلوم ملت پر حملے سے روکنے کی استعداد سے محروم ہیں۔ہماری اُن سے شکایت یہ ہے کہ اپنی قوم کو تیار کرنے کی بجائے، ردعمل کے طورپر اُنہوں نے جوابی تشدد کا راستہ ہی کیوں اختیار کیا، چاہےانتہائی چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں؟ لیکن ہماری ہمدردی کے وہ بہرحال اس بنا پر مستحق ٹھہرتے ہیں کہ اُنہوں نے پر ملت پرظلم وبربریت کرنے والے جارح امریکہ کے خلاف اپنے عیش وعشرت کی زندگی کو تج دیا، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ ہمارے قومی حکمران ظالموں سے ذاتی مفادات کی سودے بازی میں مشغول تھے۔یہ درست ہے کہ ان کی اختیار کردہ حکمت ِعملی سے جواباً اہل اسلام پر ظلم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ظالموں کو مشق ستم کرنے کا مزید موقع ملا، لیکن یہ ان کی حکمت ِعملی اور اندازے کی غلطی تھی جس کا مشاہدہ آج ہم محدود طورپر کرسکتے ہیں، مذکورہ بالا فردِ جرم کی بنا پر ملت کے اِن مدافعین کو اہل اسلام سے غیریت واجنبیت کا اور ظالموں کو محبت واپنائیت کا صلہ ملنا صریح ناانصافی ہے!! غور وفکر کا مقام ہے کہ کیا مسلم اُمّہ اس قدر بانجھ ہوگئی ہے کہ ایک مسلّمہ ظالم کے ظلم کو للکارنے والے کا ساتھ دینے سے عاری ہونے کے بعد، وہ ان کے پرعزیمت کردار سے بھی لازماً اظہارِ برات ہی کرے۔ اگر کسی قوم میں آزادی کے یہ جذبات اور ظلم کے خلاف یہ مجاہدانہ پکار بھی ختم ہوجائے، یا اُسے بھی ختم کرنے کی دعوت دی جائے تو پھر یہ ذلت ورسوائی پر قناعت ، دراصل غیرت وحمیت کی موت ہے جو کسی طرح بھی کم مہلک نہیں۔ مظلوم کی یہ پکار تو ظالم کے خلاف اُمید کی ایک کرن ہے جس کا ساتھ دیا جاتا تو توازن کے بعد یہ روشنی کا مینار ثابت ہوتی۔ دوسرا رویہ: حکمرانوں کی تکفیر اور عوامی قتل وغارت بعض لوگ مسلمانوں کے اِن جہادی خیالات رکھنے والوں کو ملت کا سنگین مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن غور کیا جائے تویہ لوگ اُمت کا اثاثہ اور اس کےضمیر کی زندگی کا پتہ دیتے ہیں جو اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کو قبول کرنے کی بجائے اس کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو القاعدہ جیسے