کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 7
ڈی ڈی کی رو سے صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل [1]ہے۔ تاہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو چیلنج/نظرثانی کیلئے آئین پاکستان ہی کی دفعہ 203ایف کے تحت کسی بھی فریق کو 60 یوم اورصوبائی ووفاقی حکومتوں کو 6 ماہ کا وقت حاصل ہے، اس مدت کے دوران نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ(شریعت اپلیٹ بنچ )میں دی جاسکتی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ
اسی طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے ویمن پروٹیکشن ایکٹ کو بھی وفاقی شرعی عدالت میں گذشتہ سال زیر بحث لایا گیا، عدالت میں اس پر بحث مباحثہ بھی ہوا اور مؤرخہ 22 دسمبر 2010ءکو اس حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خاں کی سربراہی میں جسٹس شہزاد شیخ اور جسٹس سید افضل حید ر نے یہ فیصلہ تحریرکیا ہے جسے نکتہ نمبر 117 کے تحت رپورٹ کیا گیا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت اپنے حالیہ فیصلہ میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2006ءکے ساتھ ساتھ ، امتناعِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء اور امتناعِ منشیات ایکٹ1997ء کو بھی زیر غور لائی ہے جس میں عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ مذکورہ بالا ایکٹس کے بعض حصے واقعتاً اسلام کے خلاف یا وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ عمل میں مداخلت ہیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ ان قوانین میں ترمیم کرکے اِن کے متبادل اسلامی قوانین لائے، بصورتِ دیگر ان کے قابل اعتراض حصے 22 جون2011ء تک نافذ العمل رہنے کے بعد آخرکار کالعدم ہوجائیں گے۔
1. وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ (نکتہ نمبر 117 کی شق نمبر5) میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ کی ترامیم 11 او ر28 کو دستور کی دفعہ 203 ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم کے مؤثر ہونے سے حدود قوانین کی بالاتر حیثیت ختم ہوگئی ہے، اس لئے اُنہیں ختم کیا جائے۔ ان ترامیم کا تعارف وجائزہ حسب ِذیل ہے:
[1] دیکھئے پاکستان کریمنل لاء جرنل2004ء، ص 899 اور PLD 1985 Lah 65