کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 69
دیے گئے۔القاعدہ کے ذمے جو بڑی بڑی کاروائیاں منسوب کی گئیں، ان میں بہت سی ابلاغی مہارتیں استعمال کی گئیں۔ پہلے جھوٹ کو تکرار سے بولنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا تھا ، اب جھوٹ کو ہر سمت اور ہر چینل سے دہرانے کی حکمت ِعملی اختیار کی گئی۔ اس واضح جھوٹ کی مثال اُسامہ بن لادن کی حالیہ مبینہ شہادت ہے،جسے 2/مئی کی رات کے وقوعے کے طورپرکوئی ذی شعورشخص ماننے کوتیار نہیں، لیکن دنیا بھر کا مین سٹریم میڈیا اس جھوٹ کو اس تکرار سے دہرا رہا ہے کہ لمحہ موجود کی گویا سب سے بڑی حقیقت یہی ہے۔یہی صورتحال نائن الیون کے حملے کی ہے، جس کا اُسامہ بن لادن نے کبھی اعتراف نہ کیا لیکن امریکہ نے اپنے تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے برعکس اور بے شمار مخالف حقائق کی موجودگی میں اِسے نہ صرف اُسامہ کے سر منڈھ دیا بلکہ کسی عدالتی کاروائی اور اثباتِ جرم کے بغیر اس کو خود ہی شہید بھی کردیا۔ حالانکہ طالبان کی حکومت کا10 برس قبل بھی یہی مطالبہ تھا کہ ’’اگر اُسامہ نے نائن الیون کا دھماکہ کیا ہے تو اس کی دلیل پیش کریں، ہم خود اُسامہ کی حفاظت کی ذمہ داری سےدستبردار ہوجائیں گے۔‘‘
دنیا بھر میں القاعدہ کی قوت کا بے انتہا مصنوعی شور مچایا جاتارہا۔ امریکہ کی ہی حالیہ رپورٹوں کے مطابق اُسامہ اس کا متحرک قائد تھا، لیکن القاعدہ کی متحرک قیادت:اُسامہ بن لادن کے جہاں کئی سال رہنے کا دعوٰی کیا جاتا ہے ، اس گھر کے بجلی کے بل ایک معمولی رہائش سے زیادہ نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اُسامہ کی ایک کال نے اسے آخرکار شہادت سے ہم کنار کردیا۔ ایسا قائد جو نہ تو کسی سے ملے، نہ ہی اس کے ہیڈکوارٹر کے کوئی اخراجات ہوں، کسی سے اس کا رابطہ نہ ہو، اور1997ء سے اس کےگردے کام نہ کررہے ہوں،ہرہفتے ڈائیلاسز کرائے بغیر چارہ نہ ہو تو پھر اس کی متحرک قیادت اور ایک سپر قوت کے خلاف مؤثر مزاحمت کا کیا معنیٰ ہے، جس شدید مزاحمت کا چند منتشر دھماکوں کے علاوہ دنیا میں کوئی وجودہی نہیں ہے۔دنیا بھر کا میڈیا ان غاروں میں برسہا برس اُسامہ کی موجودگی پر مصر ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں۔اس صورتحال میں یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ کئی ایک دھماکے جو علاقائی دہشت گردوں نے حکومتوں کو دبانے کے لئے کئے، اُن کی ذمہ داری مغرب کی ہی خبررساں ایجنسیوں کی زبانی مطلوبہ تنظیم کے نام مشتہر کردی جاتی رہی۔الغرض امریکہ کی مشہورکردہ’القاعدہ‘ خود اسی کی رپورٹوں کی روشنی میں، نہ تو کوئی غیرمعمولی تنظیم نظرآتی ہے اور نہ ہی اس کا بڑا ہی خوفناک اور مہلک نیٹ ورک دکھائی دیتا ہے۔یہ سب کیا دھرا تو اس مین سٹریم میڈیا کا ہے جسے صہیونی ادارے خبروں کی خوراک فراہم کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پنٹاگون میں چند سال قبل عسکری حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ ابلاغی جنگ کے لئے خطیر رقم سے باقاعدہ سنٹر قائم کیا گیا، جس کے ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں ۔
امریکہ کی نظر میں ’القاعدہ‘ دراصل ہر اس رویے، جذبے اور کوشش کا نام ہے جو امریکہ کے